نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا
2.نمازی کے کپڑوں کا پاک ہونا 1.جو کپڑے نماز پڑھنے والے کے بدن پر ہوں جیسے کرتہ پاجامہ ٹوپی، عمامہ، اچکن، موزہ وغیرہ ان سب کا پاک ہونا ضروری ہے ، یعنی ان میں سے کسی پر نجاست غلیظہ کا ایک درہم سے زیادہ نہ ہونا اور نجاست خفیفہ کا کپڑا کے چوتھائی حصہ تک نہ ہونا نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے پس اگر نجاست غلیظہ ایک درہم یا اس سے کم اور نجاستِ خفیفہ چوتھائی کپڑے سے کم ہو گی تو نماز مکروہ ہو گی 2.اگر نمازی کے بدن سے متصل کپڑا پاک ہے اور اس کا فالتو حصہ جو بدن سے الگ فرش وغیرہ پر ہے اور وہ نجس ہے اگر وہ نجس حصہ نمازی کے حرکت کرنے سے حرکت کرتا ہے تو نماز نہ ہو گی اور اگر اتنا بڑا ہے کہ حرکت نہ کرے تو نماز ہو جائے گی 3.اُس چیز کا بھی پاک ہونا فرض ہے جس کو نمازی اُٹھائے ہوئے ہے جبکہ وہ چیز اپنی قوت سے رکی ہوئی نہ ہو، مثلاً نمازی کی گود میں آدمی کا بچہ بیٹھ گیا یا اُس سے چمٹ کر چڑھ گیا اور اُس بچہ میں سنبھلنے کی سکت نہیں ہے اور اُس بچہ پر اس قدر نجاست لگی ہوئی ہے جس سے نماز درست نہیں ہوتی اور وہ بچہ اتنی دیر ٹھہرا جس میں ایک رکن ادا کر سکے یعنی تین بار سبحان اللّٰہ کہہ سکے تو نماز فاسد ہو جائے گی اگر اس سے کم ٹھہرا تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور اگر وہ بچہ نمازی کے تھامنے کا محتاج نہ ہو یعنی اس میں خود سنبھلنے کی طاقت ہو اور وہ خود نمازی کو چمٹا ہو تب بھی نماز فاسد نہیں ہو گی خواہ بہت دیر تک ٹھہرا رہے 4.اگر نمازی کے جسم پر ایسی چیز ہو جس کی نجاست اپنی جائے پیدائش میں ہو اور خارج میں اس کا کچھ اثر نہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور نماز درست ہو جائے گی، مثلاً اگر نمازی کے پاس آستین یا جیب وغیرہ میں ایسا انڈا ہو جس کی زردی خون بن چکی ہو یا انڈے میں مرا ہوا بچہ ہو تو نماز درست ہو جائے گی کیونکہ نجاست اس کے اپنے جائے پیدائش میں ہے جیسا کہ خود نمازی کے پیٹ میں اس کا فضلہ رہتا ہے اور وہ نماز کا مانع نہیں ہے 5.اگر کسی نے نماز پڑھی اور شہید اُس کے کاندھے پر ہے اور شہید کے بدن یا کپڑوں پر خون بہت پڑا ہے تو نماز درست ہو گی کیونکہ شہید کا خون جب تک اس کے بدن یا کپڑے پر ہے اور کپڑے اُس کے جسم پر پہنے ہوئے ہیں پاک ہے اور جب وہ خون بدن یا کپڑے سے الگ ہو گیا یا کپڑا بدن سے الگ ہو گئے تو اب ناپاک ہیں 6.اگر اکھڑے ہوئے دانت کو پھر منھ میں رکھ لیا اور نماز پڑھی تو نماز جائز ہو گی اگرچہ قدر درہم سے زیادہ ہو یہی صحیح ہے کیونکہ آدمی کا دانت پاک ہے ، اسی طرح خنزیر کے سوا سب جانوروں کی دانت یا ہڈی پاک ہے جبکہ اس پر چکنائی نہ ہو خواہ وہ مردے کے ہوں یا زندہ جانور کی پس اگر کسی نے نماز پڑھی اور اس کی گردن میں ایک پٹہ تھا جس میں کتے یا بھیڑئیے کے دانت ہیں تو نماز درست ہے 7.اگر کسی نے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس کے پاس چوہا یا بلی یا سانپ ہے تو نماز درست ہو گی مگر گنہگار ہو گا اور یہی حکم ان سب جانوروں کا ہے جن کے جھوٹے پانی سے وضو جائز ہے 8.اگر کوئی شخص ایک جبہ پہن کر نماز پڑھتا رہا اور اس جبہ کے اندر روئی وغیرہ کچھ بھرا ہوا تھا پھر کسی وقت اس میں مرا ہوا چوہا نکلا اگر اس جبہ میں کوئی سوراخ تھا یا وہ پھٹا ہوا تھا تو وہ تین دن رات کی نمازیں لوٹائے اور اگر تازہ مرا ہوا نکلا کہ پھولا یا پھٹا نہیں یا خشک نہیں ہوا تو ایک دن رات کی نمازیں لوٹائے ، اگر کوئی سوراخ یا پھٹا ہوا نہیں تھا تو جتنی نمازیں اس جبہ سے پڑھی ہیں سب لوٹائے ۹.اگر ایسے دو کپڑوں میں نماز پڑھی کہ ہر ایک پر مقدار درہم سے کم نجاست لگی ہے لیکن اگر دونوں کو جمع کریں تو قدر درہم سے زیادہ ہے تو جمع کریں گے اور اس سے نماز درست نہ ہو گی موزہ بھی لباس میں شامل ہے پس اگر کپڑے اور موزہ میں سے ہر ایک پر قدرِ درہم سے کم نجاست لگی ہو اور ان دونوں کی نجاست مل کر قدرِ درہم سے زیادہ ہو تو نماز درست نہ ہو گی، اگر ایک ہی کپڑے پر کئی جگہ نجاست لگی ہو تب بھی جمع کریں گے اگر قدرِ درہم سے زیادہ ہو گی تو مانع نماز ہو گی غرض کہ جسم پر لباس وغیرہ سے جو بھی چیز ہو گی سب کی نجاست متفرقہ کو جمع کیا جائے گا 10.اگر اکہرے اکہرے کپڑے میں نجاست قدر درہم سے کم لگی ہے مگر دوسری طرف کو پھوٹ نکلی اور دونوں طرف کی نجاست مل کر قدرِ درہم سے زیادہ ہو جاتی ہے تو یہ جمع نہیں کی جائے گی اور نماز درست ہو گی 11.اگر دوہرے کپڑے کی ایک تہ پر قدرِ درہم سے کم نجاست لگی اور دوسری تہ تک پھوٹ نکلی تو امام ابو یوسف کے نزدیک وہ اکہرے کپڑے کے حکم میں ہے اور نماز کی مانع نہیں ، اس قول میں آسانی ہے اور امام محمد کے نزدیک جمع کریں گے پس اگر قدرِ درہم سے زیادہ ہو گی تو نماز درست نہ ہو گی اس قول میں احتیاط زیادہ ہے 12.اگر نمازی کے پاس نماز کی حالت میں ایسا درہم تھا جس کی دونوں طرفین نجس تھیں تو مختار یہ ہے کہ وہ نماز جائز ہونے کے مانع نہیں اور یہی صحیح ہے کیونکہ وہ کل ایک درہم ہے 13.نمازی اگر اپنے کپڑے پر قدرِ درہم سے کم نجاستِ مغلظہ پائے اور وقت میں گنجائش ہو تو افضل یہ ہے کہ کپڑا دھو کر نماز شروع کرے اور اگر وہ جماعت اس سے فوت ہو جائے اور کسی دوسری جگہ جماعت مل جائے تب بھی یہی حکم ہے اور اگر یہ خوف ہو کہ جماعت نہ ملے گی یا وقت جاتا رہے گا تو اسی طرح نماز پڑھتا رہے ، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ نماز میں شامل ہو گیا ہو پھر اس کو نجاست کا علم ہوا ہو، اگر نماز میں شامل نہیں لیکن جماعت کے قریب پہنچ گیا ہے اور جماعت والے نماز میں ہیں اور اس کو خوف ہے کہ اگر اس کو دھوئے گا تو جماعت فوت ہو جائے گی تو بہتر یہ ہے کہ نماز میں شامل ہو جائے اور اس کو نہ دھوئے 14.اگر اپنے کپڑے پر نجاست مغلظہ قدرے درہم سے زیادہ لگی ہوئی دیکھے اور یہ معلوم نہیں کہ کب لگی تھی تو بالاجماع یہ حکم ہے کہ کسی نماز کا اعادہ نہ کرے یہی اصح ہے 15.اگر کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے کپڑے میں نجاست قدرِ درہم سے زیادہ دیکھے تو اگر اس کو گمان غالب ہے کہ اس کو خبر کر دینے پر وہ نجاست کو دھو لے گا تو اس کو خبر دینا فرض ہے اور اس صورت میں چپ رہنا جائز نہیں اور اگر اس کو یہ گمان غالب نہ ہو یا یہ گمان ہو کہ وہ کچھ پرواہ نہیں کرے گا تو اس کے اختیار ہے کہ خبر کرے یا نہ کرے یعنی چپ رہنا بھی جائز ہے ہر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے یہی اصول ہے اور اس میں یہ بھی شرط ہے اپنی ذات پر ضرر کا خوف نہ ہو پس اگر ضرر کا خوف ہو تو وہ مختار ہے کہ امر بالمعروف کرے یا نہ کرے لیکن کرنا افضل ہے اور اس حالت میں اگر قتل کر دیا گیا تو شہید ہو گا 16.اگر نمازی کو پاک اور نجس کپڑوں میں شبہ پڑ جائے تو تحری کرے اور ظنِ غالب پر عمل کرے اور اس کے ظنِ غالب میں جو کپڑا پاک ہو اس سے نماز پڑھے، اگر کسی نے ایسے کپڑے میں نماز پڑھی جو اس کے نزدیک نجس تھا پھر نماز سے فارغ ہو کر معلوم ہوا کہ وہ پاک تھا تو وہ نماز جائز ہو گی
Top