قبلے کی طرف منھ کرنا
1. قبلہ کی طرف منھ کرنا جبکہ اس پر قادر ہو نماز صحیح ہونے کے لئے شرط ہے ، مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے ، یہ ایک چوکور مکان ہے جو ملک عرب کے شہر مکہ معظّمہ میں واقع ہے اس کو خانہ کعبہ، کعبۃ اللّٰہ، بیت اللّٰہ اور بیت الحرام کہتے ہیں ، نماز خواہ فرض ہو یا نفل اور سجدہ تلاوت ہو یا نماز جنازہ ہر نماز و سجدہ کے لئے ضروری ہے کہ قبلہ کی طرف منھ کرے اس پر قادر ہوتے ہوئے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہیں ہے خواہ قبلے کی طرف منھ کرنا حقیقتہً ہو یا حکماً مثلاً بیماری یا دشمن کے خوف سے قبلے کی طرف منھ نہیں کر سکتا تو وہ جس طرف منھ کر سکتا ہو، یا قبلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اٹکل سے وہ جس طرف کو اپنا قبلہ ٹھہراتا ہے وہ اس کا قبلہ حکمی ہے قبلہ مسجودالیہ ہے ( یعنی اُس کی طرف سجدہ کیا جاتا ہے ) مسجودلہ ( یعنی جس کو سجدہ کیا جائے ) نہیں ہے بلکہ مسجودلہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ جہت آزمائش و یکجہتی کے لئے مقرر ہوئی ہے 2. جو شخص مکہ مکرمہ میں ہے اس کو عین کعبہ کی طرف منھ کرنا لازمی ہے خواہ درمیان میں کوئی دیوار یا پہاڑ وغیرہ حائل ہو یا نہ ہو، اور یہ اس وقت ہے جبکہ عین کعبہ کی تحقیق ممکن ہو مثلاً چھت پر چڑھ کر دیکھ سکتا ہو اور اگر یہ تحقیق ممکن نہ ہو تو مکہ والوں کے لئے بھی جہت کافی ہے اگر صرف حطیم کی طرف منھ کر کے نماز پڑھے اور کعبہ معظّمہ کا کوئی جزو اس کے سامنے نہ آئے تو نماز جائز نہیں 3. جو شخص مکہ معظّمہ سے باہر ہو اور خانہ کعبہ کو نہ دیکھتا ہو اُس کا قبلہ کعبہ معظّمہ کی جہت ہے پس اس کے چہرے کی کچھ سطح خانہ کعبہ یا فضائے کعبہ کے مقابل تحقیقتاً یا تقریباً واقع ہو تحقیقی سامنے ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے چہرے کی سیدھ سے ایک سیدھا خط کھینچا جائے تو وہ کعبہ یا اس کی فضا پر گزرے اور تقریبی یہ ہے کہ خطِ مذکور خانہ کعبہ یا اس کی فضا سے بالکل ہٹا ہوا نہ ہو بلکہ کسی قدر چہرے کی سطح کعبہ یا اُس کی فضا کے مقابل رہے کعبہ کی جہت دلیل یعنی علامت سے معلوم کی جاتی ہے اور وہ دلیل و علامت شہرو قصبوں اور دیہاتوں میں وہ مہرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین نے بنائی ہیں اگر وہ نہ ہوں تو اس بستی کے لوگوں سے پوچھے اور صرف ایک آدمی سے پوچھنا کافی ہے دریاؤں ، سمندروں ، جنگلوں میں قبلہ کی دلیل سورج، چاند اور ستارے ہیں 4. خانہ کعبہ کی عمارت سے گھری ہوئی جگہ کے مطابق تحت الثریٰ یعنی ساتویں زمین کے نیچے سے لے کر عرش معلیٰ تک کے درمیان کی فضا قبلہ ہے پس اگر کوئی شخص زمین کے اندر گہرے کنوئیں میں یا اونچے پہاڑ یا ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھے گا تو اگر کعبہ کی فضا اس کے سامنے ہو گی تو اس کی نماز درست ہو گی، خانہ کعبہ کے اندر یا کعبہ مکرمہ کی چھت پر نماز پڑھے تو جدھر کو چاہے منھ کر لے 5. قبلہ کی طرف منھ کرنا سے مراد قبلے کی طرف سینہ کرنا ہے منھ کرنا شرط نہیں البتہ سنت ہے استقبال قبلہ سے عاجز ہونے کے مسائل 1. اگر کسی بیمار کا منھ قبلے کی طرف نہیں ہے اور وہ اس پر قادر بھی نہیں اور نہ اُس کے پاس کوئی دوسرا شخص ہے جو اس کا منھ قبلہ کی طرف پھیر دے یا آدمی تو ہے لیکن منھ پھیرنا بیمار کو نقصان دیتا ہے تو جس طرف اس کا منھ ہو اُسی طرف نماز پڑھ لے اور اگر دوسرے کی مدد سے قبلہ کی طرف منھ کر سکتا ہو اور ایسا آدمی موجود ہو اور اُس سے بیمار کو نقصان بھی نہ ہو تو وہ معذور نہیں ہے ، اس کو قبلہ کی طرف منھ کرنا ضروری ہے ورنہ نماز درست نہیں ہو گی یہی معتمد ہے 2. جس کو قبلہ کی طرف منھ کرنے میں کچھ خوف ہو خواہ وہ خوف دشمن کا ہو یا درندے کا یا چور کا تو وہ جس طرف قادر ہو اُسی طرف کو منھ کر کے نماز پڑھ لے، اگر اس کا عذر آسمانی ہو کسی مخلوق کی طرف سے نہ ہو مثلاً بیماری بڑھاپا، خوفِ دشمن وغیرہ تو بعد میں اُس نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر عذر مخلوق کی طرف سے ہو مثلاً قید میں ہو اور وہ لوگ اس کو روکیں تو بغیر قبلہ کے نماز پڑھ لے اور عذر دور ہونے پر اُس نماز کا اعادہ کرے 3. کشتی میں فرض یا نفل پڑھے تو اس پر بھی قبلے کی طرف منھ کرنا واجب ہے اور نماز کے اندر کشتی گھومنے پر وہ خود بھی گھوم کر قبلے کی طرف پھرتا جائے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح ریل گاڑی میں بھی قبلے کی طرف منھ کرنا ضروری ہے اور جب نماز پڑھتے ہوئے ریل گھوم جائے اور قبلہ دوسری طرف ہو جائے تو یہ بھی نماز ہی میں گھوم جائے اور قبلہ کی طرف منھ کر لے ورنہ نماز درست نہ ہو گی لیکن اگر ریل گاڑی میں قبلے کی سمت پر قادر نہ ہو تو جس طرف پر قادر ہو اسی طرف منھ کر کے نماز پڑھ لے اور کھڑا ہونے پر قادر نہ ہونے کی صورت میں بیٹھ کر پڑھ لے، لیکن بلاوجہ قیام اور استقبال قبلہ کو ترک نہ کرے اور بہانہ تراشی نہ کرے، آج کل لوگ اس بات سے غافل ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے اٹکل سے قبلہ معلوم کرنے کے مسائل 1. آبادی میں پرانی مہرابوں اور مسجدوں کے ذریعہ قبلہ معلوم کرنا مقدم ہے اگر یہ میسر نہ ہو تو ایسے شخص سے پوچھے جو وہاں کا رہنے والا اور قبلے کا جاننے والا ہو، اس کی گواہی قبول کی جاتی ہو اور وہ اس کی آواز کو سنتا ہو، اگر اس سے بھی عاجز ہو تو اب اپنی اٹکل سے قبلہ کی سمت مقرر کر کے نماز پڑھنا لازمی ہے پرانی محرابوں اور مسجدوں کے ہوتے ہوئے کسی سے پوچھنے کا کوئی اعتبار نہیں اور نماز جائز نہیں ، اور پرانی محرابوں و مسجدوں کے نہ ہونے کی صورت میں ایسے شخص کے موجود ہوتے ہوئے جو قبلے کا جاننے والا اور وہاں کا رہنے والا ہو اس کی گواہی قبول کی جاتی ہو اور وہ اُس کی آواز سنتا ہو، پوچھے بغیر اٹکل سے قبلے کی سمت مقرر کرنا جائز نہیں پس مقدم کی موجودگی میں موخر کو اختیار کرنا جائز نہیں ہے 2. اگر شرائط کے ساتھ اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھی پھر نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا گمان غلط تھا تو نماز کا اعادہ نہ کرے اور اگر نماز کے اندر ہی معلوم ہو گیا یا رائے بدل گئی اور گمان غالب کسی دوسری طرف پر ہو گیا اگرچہ سہو کے سجدوں میں ہو تو قبلے کی طرف کو پھر جائے اور باقی نماز کو اسی طرح پوری کر لے نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت نہیں اگر اس صورت میں فوراً اس طرف کو نہ پھرا اور ایک رکن کی مقدار دیر کی تو نماز فاسد ہو جائے گی 3. قبلہ معلوم کرنے کے جو ذرائع بیان ہوئے ان پر قادر ہوتے ہوئے اٹکل لگانا جائز نہیں ، عورت کے لئے بھی پوچھنا ضروری ہے ایسے وقت میں شرم نہ کرے بلکہ پوچھ کر نماز پڑھے ورنہ نماز نہ ہو گی، اگر ایسے جاننے والے شخص کے موجود ہوتے ہوئے اس سے پوچھے بغیر اٹکل سے نماز پڑھ لی، اگر ٹھیک قبلے کی طرف کو نماز پڑھی گئی تو نماز جائز ہو گی اور اگر ٹھیک سمت کو نہیں پڑھی تو جائز نہ ہو گی، کسی شخص کے پاس ہونے کی حد یہ ہے کہ اگر اس کو بلند آواز سے پکارے تو وہ سن لے 4. اگر کسی کو جنگل میں قبلے کا شبہ پڑ جائے اور وہ اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ سمجھے اور دو معتبر آدمی اُس کو خبر دیں کہ قبلہ اور طرف ہے اگر وہ دونوں بھی مسافر ہیں تو ان کے کہنے پر توجہ نہ کرے اور اگر اسی جگہ کے رہنے والے ہوں یا اکثر آنے جانے کی وجہ سے یا علم کے کسی دوسرے طریقے سے ان کو قبلہ کی معرفت حاصل ہے تو ان کا کہنا مانے ورنہ نماز جائز نہ ہو گی، ہر شخص کے لئے اپنی تحری پر عمل کرنا لازمی ہے دوسرے کی تہری پر نہیں 5. اگر کسی شہر میں داخل ہو جائے اور وہاں محرابیں یا مسجدیں بنی ہوئی دیکھے تو اُنہی کی طرف نماز پڑھے اٹکل سے نہ پڑھے اور اگر جنگل میں ہے اور آسمان صاف ہے اور وہ ستاروں سے قبلے کے سمت پہنچان سکتا ہے تب بھی اٹکل سے نماز نہ پڑھے اگر اُن دونوں صورتوں میں اٹکل سے سمتِ قبلہ مقرر کر کے نماز پڑھے گا اور جہت کے خلاف پڑھی گئی تو نماز نہ ہو گی اور اگر ٹھیک قبلہ کی جانب کو پڑھی گئی تو ہو گئی 6. اگر کسی مسجد میں داخل ہوا اور اُس میں محراب نہیں اور اس کو قبلہ معلوم نہیں اس نے اٹکل سے نماز پڑھ لی پھر ظاہر ہوا کہ غلطی ہوئی تو اس نماز کو لوٹانا واجب ہے اس لئے کہ وہاں کے رہنے والوں سے پوچھنے پر قادر ہے اور اگر ظاہر ہو گیا کہ اس نے ٹھیک قبلے کی طرف پڑھی ہے تو نماز درست ہے اور اگر اس نے وہاں کے رہنے والے اور سمت قبلہ جاننے والے شخص سے پوچھا اور اُس نے نہ بتایا پھر اس نے اٹکل سے نماز پڑھ لی تو جائز ہے اگرچہ بعد میں ظاہر ہو کہ قبلے کی سمت میں غلطی ہوئی ہے پس اگر وہ آدمی نماز کے بعد بتا دے تو اب نماز کو نہ لوٹائے اندھیری رات یا بارش وغیرہ میں نمازی کو پوچھنے کے لئے لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانا واجب نہیں ہے لیکن اگر بلانے اور پوچھنے میں حرج نہ ہو تو اٹکل سے پہلے پوچھنا واجب ہے اندھیرے میں محراب قبلہ معلوم کرنے کے لئے جب کہ بآسانی پتہ نہ چل سکے دیواروں کو ٹٹولتے پھرنا بھی واجب نہیں ہے 7. اگر کسی کو قبلے کی سمت میں شک ہوا اور مذکورہ علامتوں سے قبلہ معلوم کرنے سے عاجز ہے اس لئے اٹکل سے کسی سمت کو قبلہ مقرر کئے بغیر ہی کسی سمت کو نماز پڑھ لی پھر اگر نماز ہی میں اس کا شک زائل ہو گیا کہ وہ ٹھیک قبلے کی جانب ہے یا قبلے کی جانب نہیں ہے یا کچھ نہ معلوم ہوا تو ہر حال میں نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد غلطی معلوم ہوئی یا کچھ نہ معلوم ہوا یا گمان غالب ہوا کہ اس نے صحیح قبلے کی طرف نماز پڑھی ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی نماز جائز نہ ہو گی اس لئے نئے سرے سے پڑھے کیونکہ شبہ کی صورت میں اس پر اٹکل لگانا (تہری) فرض تھا جو اس نے چھوڑ دیا اور اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس نے صحیح قبلے کی سمت نماز پڑھی ہے تو بالاتفاق اس کی نماز جائز ہو گی اس کا اعادہ نہ کرے 8. اگر اٹکل سے ایک سمت کو قبلہ مقرر کیا لیکن نماز اس کے بجائے دوسری سمت کو پڑھی تو فتویٰ اس پر ہے کہ ہر حال میں دوبارہ نماز پڑھے ۹. اگر اٹکل سے کسی طرف کو گمان غالب نہ ہوا بلکہ اس کے نزدیک سب طرفیں قبلہ ہونے میں برابر ہوں تو اس میں تین قول ہیں بعض نے کہا کہ نماز میں تاخیر کریں یہاں تک کہ اس کے گمان میں ایک طرف قبلہ ظاہر ہو جائے ، بعض نے کہا چاروں طرف کو ایک ایک دفعہ نماز پڑھ لیں یہی زیادہ صحیح و احوط ہے ، بعض نے کہا چاروں اس کے حق میں برابر ہیں کسی ایک طرف کو اختیار کر کے اسی طرف کو نماز پڑھ لے علامہ شامی نے اسی کو ترجیع دی ہے واللہ اعلم 10. اگر اٹکل سے قبلہ مقرر کر کے نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھی پھر اس کی رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی پھر تیسری یا چوتھی رکعت میں اس کی رائے اس طرف کو بدل گئی جس طرف کو پہلی رکعت پڑھی تھی تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے بعضوں نے کہا کہ وہ پہلی رکعت والی طرف کو اپنی نماز پوری کر لے یہی اوجہ ہے اگرچہ بعض نے کہا کہ نئے سرے سے پڑھے، اگر کسی شبہ کی وجہ سے اٹکل سے ایک رکعت ایک طرف کو پڑھی پھر رائے دوسری طرف کو بدل گئی اور اس نے دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھی اسی طرح چاروں رکعتیں چاروں طرف کو پڑھیں تو جائز ہے 11. اٹکل سے قبلہ کو تجویز کرنا جس طرح نماز کے لئے ضروری ہے ویسے ہی سجدہ تلاوت کے لئے بھی ضروری ہے تہری والی کے پیچھے نماز پڑھنے کے مسائل 1. اگر کسی شخص نے اٹکل (تہری) سے نماز پڑھی اور ایک شخص نے اس کے پیچھے بغیر تہری کے اقتدا کی، اگر امام نے ٹھیک قبلے کی طرف نماز پڑھی تو امام اور مقتدی دونوں کی نماز درست ہے اور اگر امام کی رائے غلط تھی تو امام کی نماز درست ہے اور مقتدی کی درست نہیں 2. ایک شخص نے اٹکل سے کسی سمت کو نماز شروع کی پھر نماز میں معلوم ہوا کہ قبلہ دوسری طرف ہے اور وہ نماز میں ہی قبلہ کی طرف پھر گیا پھر ایک شخص آیا جس کو اس کی پہلی حالت معلوم تھی اور اس نے نماز میں اسی طرف کو منھ کر کے اس کی اقتدا کی تو امام کی نماز درست ہو گی، مقتدی کی فاسد ہو گی اور اگر اس کو پہلے شخص کی حالت معلوم نہیں تھی یا حالت معلوم ہونے کی صورت میں اس کو بھی تہری سے اسی طرف کے قبلے ہونے کا ظن غالب ہوا تھا جس طرف امام کا تھا اور اب رائے بدلنے پر اس نے بھی تہری کی اور امام کی رائے کے مطابق ظن غالب ہوا تو اس مقتدی کی نماز بھی اس امام کو پیچھے جائز ہو گی 3. کسی اندھے نے قبلے کے سوا کسی اور سمت کو ایک رکعت پڑھ لی پھر ایک شخص نے آ کر اُسے قبلے کی طرف کو پھیر دیا اور اس کی اقتدا کر لی، اگر اس نابینا کو نماز شروع کرتے وقت ایسا آدمی ملا تھا جس سے وہ قبلہ دریافت کر سکتا تھا اور نہ پوچھا تو اس امام اور مقتدی دونوں کی نماز فاسد ہے اور اگر ایسا آدمی نہیں ملا تھا تو نابینا کی نماز درست ہے اور مقتدی کی فاسد ہے اگر نابینا کو ایسا آدمی نہ ملے جس سے پوچھ سکے تو محراب کا ٹٹولنا واجب نہیں ہے اور اگر ایسا آدمی ملے اور بغیر پوچھے نماز پڑھ لے تو اگر صحیح قبلے کی طرف پڑھی گئی تو نماز ہو گی ورنہ نہیں خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کے مسائل 1. خانہ کعبہ کے اندر اور باہر یعنی مسجدالحرام میں ہر نماز فرض و نفل پڑھنا بلا کراہت صحیح ہے خواہ اکیلا پڑھے یا جماعت سے اور خواہ بغیر سترے کے ہو اور وہاں نمازی کے آگے سے گزرنا معاف ہے ، خانہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر خانہ کعبہ کے اندر جماعت سے نماز پڑھیں اور امام کے گرد صفیں بنائیں تو کعبے کی طرف منھ کرنے میں جماعت والوں کے منہ جدا جدا طرف کو ہوں گے پس جس مقتدی کی پیٹھ امام کے منھ کی طرف ہو گی اس کی نماز جائز نہیں ہو گی کیونکہ وہ شخص امام سے آگے ہو گا اور جس مقتدی کا منھ امام کو منھ کی طرف ہو اور امام اور مقتدی کے درمیاں کوئی سترہ (آڑ) نہ ہو تو اس کی نماز جائز مگر مکروہ ہو گی اور اگر سترہ (کپڑا وغیرہ لٹکایا) ہو تو مکروہ نہ ہو گی اس کے علاوہ جتنی صورتیں ہیں سب میں نماز بلا کراہت جائز ہو گی 2. اگر امام نے خانہ کعبہ سے باہر مسجد الحرام میں نماز پڑھی اور جماعت کے لوگ خانہ کعبہ کے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہوں اگر امام کے ساتھ نماز میں شامل ہوئے تو سب کی نماز درست ہے صرف اس شخص کی نماز درست نہیں ہو گی جو امام کی سمت میں امام سے آگے ہو یعنی امام کی بہ نسبت کعبہ شریف کے قریب ہو اور امام ہی کی سمت میں کھڑا ہو اور اگر وہ شخص جو امام کی بہ نسبت خانہ کعبہ سے زیادہ قریب ہے امام کی سمت میں نہیں ہے بلکہ کسی دوسری سمت میں ہے تو اس کی نماز درست ہو جائے گی کیونکہ وہ حکاماً امام کے پیچھے ہے اور امام سے آگے بڑھنا اس وقت ہوتا ہے جبکہ دونوں کی جہت ایک ہی ہو، اگر مقتدی اس رکن (کونے) کی سیدھ میں ہے جو امام کی جانب میں ہے اور امام سے زیادہ کعبہ شریف کے قریب ہے تو احتیاطاً اس کی نماز فاسد ہو گی 3. اگر امام خانہ کعبہ کے اندر کھڑا ہو اور کوئی مقتدی امام کے ساتھ اندر بھی ہو اور باقی مقتدی کعبہ کے باہر ہوں اور دروازہ کھلا ہوا ہو تاکہ مقتدی امام کے رکوع و سجود وغیرہ کا حال معلوم کر سکیں تو نماز بلا کراہت جائز ہے اور اگر دروازہ بند ہو لیکن کوئی تکبیر کہنے والا آواز پہنچاتا جائے تب بھی اقتدا درست ہے اور اگر امام اکیلا خانہ کعبہ کے اندر ہو اس کے ساتھ مقتدی کوئی نہ ہو تو مکروہ ہے کیونکہ خانہ کعبہ کا اندرونی فرش قد آدم سے زیادہ بلند ہے 4. اگر مقتدی خانہ کعبہ کے اندر اور امام باہر ہو تب بھی نماز درست ہے بشرطیکہ دونوں کی جہت ایک نہ ہو یعنی مقتدی کی پیٹ امام کے منھ کی طرف نہ ہو اسی طرح اگر کچھ مقتدی حطیم میں ہوں اور امام اور دیگر مقتدی خانہ کعبہ و حطیم سے باہر ہوں تب بھی حطیم میں کھڑے ہونے والوں کی اقتدا درست ہے کیونکہ ان کی اور امام کی جہت متحد نہیں ہے جس سے ان کا امام کے آگے ہونا لازم آتا بلکہ وہ امام سے دوسری جہت میں مستقبل قبلہ ہے معہذا حطیم کا خانہ کعبہ کا جزو ہونا قطعی الثبوت نہیں ہے بکہ ظنی الثبوت ہے اور جبکہ خانہ کعبہ میں موجود مقتدی کی نماز اس امام سے جو خانہ کعبہ سے باہر ہو درست ہے بشرطیکہ دونوں کی سمت ایک نہ ہو تو حطیم میں موجود مقتدی کی نماز بدرجہ اولیٰ درست ہو گی جبکہ مقتدی کی سمتِ کعبہ امام کی سمت کعبہ سے دوسری ہو 5. اگر خانہ کعبہ کے اندر کوئی عورت امام کے برابر میں کھڑی ہو گئی اور امام نے اس کی امامت کی نیت کر لی، اگر اس عورت نے بھی اس طرف منھ کر لیا جس طرف امام کا منھ ہے تو امام کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر دوسری طرف کو منھ کیا تو امام کی نماز فاسد نہ ہو گی 6. اگر کسی نے خانہ کعبہ کے اندر ایک رکعت ایک سمت کے پڑھی تو اب اس تحریمہ کی نماز کے لئے وہ سمت اس کے لئے متعین ہو گئی اس لئے اب اس کو اسی تحریمہ کی پوری نماز اسی سمت میں پڑھنا واجب ہے پس اگر دوسری رکعت دوسری طرف کو پڑھے گا تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی
Top