نماز تہجّد
صلٰوة اللیل یعنی رات کی نفل نماز کی ایک قسم عام ہے ، نمازِ عشا کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ صلٰوة اللیل عام ہے اس کی دوسری قسم صلٰوة اللیل خاص ہے اور یہ نمازِ تہجّد ہے اور وہ یہ ہے کہ عشا کے بعد سو جائیں اور آدھی رات کے بعد اٹھیں اور نوافل پڑھیں سونے سے پہلے جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں ، لیکن جو شخص سو کر اٹھنے کا عادی نہ ہو وہ سونے سے پہلے کچھ نوافل پڑھ لیا کرے تو اس کو تہجد کا ثواب مل جائے گا اگرچہ ویسا ثواب نہ ہو گا جو سو کر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنے سے ہوتا ہے نماز تہجد کا وقت آدھی رات کے بعد سو کر اٹھنے سے شروع ہوتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ رات کے چھ حصے کریں پہلے تین حصے میں یعنی آدھی رات تک سوئے اور چوتھے پانچویں حصے میں جاگے اور نماز تہجد پڑھے اور ذکر وغیرہ کرے اور پھر آخری چھٹے حصے میں سوئے اس کی کم سے کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ہیں اور اوسط درجہ چار رکعت ہیں ، دس اور بارہ رکعت تک کا بھی ثبوت ملتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اکثر عادت آٹھ رکعت پڑھنے کی تھی، اور حسب موقع کم و بیش بھی پڑھی ہیں پس یہی عادت ہونی چاہئے ، جو شخص تہجد کا عادی ہو اسے بلا عذر چھوڑنا مکروہ ہے اس میں کوئی سورت پڑھنا معین نہیں ہے ، حافظ کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن شریف کی روزانہ کی منزل مقرر کر کے پڑھا کرے تاکہ چند دنوں میں پورا قرآن مجید ختم ہوتا رہے ، جو حافظ نہ ہو لیکن بڑی سورتیں مثلاً سورة بقرہ، سورة آل عمران یا سورة یٰس وغیرہ یاد ہوں پڑھا کرے بعض مشائخ سورة یٰس کو آٹھ رکعت میں تقسیم کر کے پڑھتے رہے ہیں ، بعض سورة اخلاص کو ہر رکعت میں متعدد دفعہ مختلف طریقہ سے پڑھتے رہے ہیں صحیح یہ ہے کہ کوئی پابندی نہیں ، اس وقت کی ماثورہ دعائیں بھی پڑھا کرے عیدین و پندرہویں شعبان و رمضان کی آخری راتوں میں اور ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنا مستحب ہے خواہ تنہا نفل پڑھے یا تلاوتِ قرآن پاک کرے یا ذکر و تسبیح و تحمید و تہلیل و درود شریف وغیرہ کا ورد کرے اگر ساری رات کا جاگنا میسر نہ ہو تو جس قدر بھی ہو سکے اسی قدر شب بیداری کر لے
Top