سنن و نوافل کے مخصوص مسائل
1.عام نفل نماز جس میں کوئی تخصیص نہ ہو سوائے اوقات مکروہہ کے ہر وقت پڑھنا مستحب ہے ، دن کی نفلوں میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعتوں سے زیادہ پڑھنا اور رات کی نفلوں میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ ایک سلام سے پڑھنا مکروہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ خواہ دن ہو یا رات چار چار رکعت پر سلام پھیرے بعض فقہا کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے اور صاحبین کے نزدیک افضل یہ ہے کہ دن کے وقت چار رکعت ایک سلام سے پڑھے اور رات کے وقت ہر دوگانہ پر سلام پھیرتا جائے بعض کے نزدیک اسی پر فتویٰ ہے ، یہی روایات کے زیادہ مطابق ہے اور اکثر علما اسی طرف گئے ہیں 2.سنتیں خواہ فرض نماز سے پہلے ہوں یا بعد کی اور نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے نو نمازیں اس حکم سے مستثنٰی ہیں اور وہ یہ ہیں اول نمازِ تراویح، دوم تحیتہ المسجد، سوم واپسی سفر کی نماز، چہارم احرام کی دو رکعتیں جبکہ میقات کے نزدیک کوئی مسجد ہو، پنجم طواف کی دو رکعتیں ، ششم اعتکاف کرنے والے کی نفل نماز، ہفتم سورج گہن کی نماز، ہشتم جس کو گھر میں جا کر کاموں میں مشغول ہو جانے کے سبب سنن و نوافل فوت ہو جانے کا ڈر ہو یا گھر میں جی نہ لگے اور خشوع کم ہو، نہم نماز جمعہ سے قبل کی سنتیں 3.جماعت قائم ہو جانے کے بعد کسی نفل نماز کا شروع کرنا جائز نہیں ، سوائے سنتِ فجر کے، پس اگر کوئی شخص گھر سے فجر کی سنتیں پڑھ کر نہیں آیا اور مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور یہ شخص جانتا ہے کہ سنتیں پڑھنے کے بعد اس کو جماعت مل جائے گی خواہ قعدہ ہی مل جائے تو وہ سنتیں پڑھ لے مگر صف کے برابر کھڑا ہو کر نہ پڑھے بلکہ جماعت سے الگ دُور پڑھے، مثلاً اگر مسجد میں اندر جماعت ہو رہی ہو تو باہر پڑھے، امام کے نماز شروع کرنے سے پہلے جہاں چاہے پڑھ لے خواہ وہ کوئی سی سنتیں ہوں ، اگر یہ معلوم ہو کہ جماعت جلدی کھڑی ہونے والی ہے اور یہ اس وقت تک سنتوں سے فارغ نہیں ہو سکے گا تو ایسی جگہ نہ پڑھے کہ اس کی وجہ سے صف قطع ہوتی ہو، اگر فجر کی نماز میں امام کو رکوع میں پایا اور یہ معلوم نہیں کہ پہلی رکعت کا رکوع ہے یا دوسری رکعت کا تو فجر کی سنتیں ترک کر دے اور جماعت میں مل جائے جو سنتیں فرضوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں اُن کو مسجد میں اسی جگہ پڑھنا جائز ہے لیکن اولٰی یہ ہے کہ وہاں سے کچھ ہٹ جائے اور امام کو اپنی جگہ سے ضرور ہٹنا چاہئے ، اس کے لئے اسی جگہ پڑھنا مکروہ ہے 4.سنت خواہ مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ اور نوافل اور وتر کی ہر رکعت میں منفرد اور امام کے لئے الحمد کے ساتھ سورة ملانا واجب ہے 5.چار رکعتی سنتِ مؤکدہ یعنی ظہر اور جمعہ سے پہلے کی اور جمعہ کے بعد کی چار رکعتوں کے پہلے قعدے میں التحیات کے بعد درود شریف نہ پڑھے اگر بھول کر پڑھ لیا تو اللھم صلی علی محمد کی مقدار پڑھنے سے سجدہ سہو کرنا لازم آتا ہے اور جب سنتوں کی تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہو تو سبحانک اللھم اور اعوذ نہ پڑھے کیونکہ سنتیں مؤکدہ ہونے کی وجہ سے فرض کے مشابہ ہو گئیں اگر چار رکعت والی سنتِ غیر مؤکدہ یا نفل نماز پڑھے تو اختیار ہے خواہ پہلے قعدے میں درود شریف و دعا بھی پڑھے اور تیسری رکعت میں ثنا اور اعوذ بھی پڑھے اور خواہ فرضوں کی طرح صرف التحیات پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور تیسری رکعت میں ثنا اور اعوذ بھی نہ پڑھے صحیح تر قول میں یہی دوسری صورت افضل ہے ، چار سے زیادہ یعنی چھ یا آٹھ رکعت نوافل کا بھی یہی حکم ہے اور نماز نذر کا بھی یہی حکم ہے
Top