نماز جمعہ صحیح ہونے کی شرطیں
1.مصر یعنی شہر یا قصبہ یا بڑا گاؤں ہونا پس چھوٹے گاؤں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ہے ، قصبہ یا بڑا گاؤں وہ ہے جس کی آبادی مثلاً تین چار ہزار کی ہو یا اپنے آس پاس کے علاقہ میں وہ بڑا گاؤں یا قصبہ کہلاتا ہو اور اس میں ایسی دکانیں ہوں جن میں روزمرہ کی ضروریات بالعموم میسر آ جاتی ہوں کوئی حاکم یا پنچائت وغیرہ بھی ایسی ہو جو ان کے معاملات میں فیصلہ کرتی ہو نیز کوئی ایسا عالمِ دین بھی رہتا ہو جو روزمرہ کے ضروری مسائل ان لوگوں کو بتا سکے اور جمعہ میں خطبہ پڑھ سکے اور نماز جمعہ پڑھا سکے پس ایسے گاؤں میں نماز جمعہ درست و فرض ہے ، شہر کے آس پاس کی ایسی آبادی جو شہر کی مصلحتوں اور ضرورتوں کے لئے شہر سے ملی ہوئی ہوں مثلاً قبرستان، چھاؤنی، کچہریاں اور اسٹیشن وغیرہ یہ سب فنائے مصر کہلاتی ہیں اور شہر کے حکم میں ہیں ان میں نماز جمعہ ادا کرنا صحیح ہے 2.بادشاہِ اسلام کا ہونا خواہ وہ عادل ہو یا ظالم یا بادشاہ کا نائب ہونا یعنی جس کو بادشاہ نے حکم دیا ہو اور وہ امیر یا قاضی یا خطیب ہو ان کے بغیر جمعہ ادا کرنا صحیح نہیں ہے ، بادشاہ کا نائب موجود ہو اور وہ کسی دوسرے شخص سے نماز پڑھوائے تو جائز و درست ہے ، اگر کسی شہر یا قصبہ میں ان میں سے کوئی موجود نہ ہو اور وہ بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں تو شہر کے لوگ ایک شخص کو مقرر کر لیں اور وہ خطبہ و نماز جمعہ پڑھائے یہ جائز و درست ہے چونکہ ہمارے زمانے میں حکومت کو ان امور کی طرف توجہ نہیں ہے لہذا لوگ خود کسی شخص کو مقرر کر لیں وہ ان کو خطبہ دے اور نماز پڑھائے یہ جائز و درست ہے 3.دارالسلام ہونا، دارالحرب میں نماز جمعہ درست نہیں ہے ( بعض فقہ نے دارالسلام کو شرائط جمعہ میں نہیں لکھا غالباً اس لئے کہ بادشاہِ اسلام ہونے میں یہ شرط خود ہی داخل ہے اور بعض نے بادشاہ اسلام یا اس کے نائب کا ہونا بھی شرط قرار نہیں دیا کیونکہ یہ شرط عقلی احتیاط کے درجہ میں ہے نہ یہ کہ اس کے بغیر شرعاً نماز جمعہ درست نہیں ہوتی اسی لئے بعض فقہ کے نزدیک بادشاہ کا مسلمان ہونا بھی شرط نہیں ہے ، واللّٰہ اعلم بصواب) 4.ظہر کا وقت ہونا، پس وقت ظہر سے پہلے یا اس کے نکل جانے کے بعد نماز جمعہ درست نہیں حتیٰ کہ اگر نماز پڑھنے کی حالت میں وقت جاتا رہا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگرچہ قاعدہ اخیرہ بقدرِ تشہد ادا کر چکا ہو یعنی یہ نماز نفل ہو جائے گی اور اس کو نمازِ ظہر کی قضا دینی ہو گی جمعہ کی قضا نہیں پڑھی جاتی بلکہ اب ظہر ہی کی قضا واجب ہو گی اور اسی نیت جمعہ پر ظہر کی بنا نہ کرے کیونکہ دونوں مختلف نمازیں ہیں بلکہ نئے سرے سے ظہر قضا کرے 5.وقت کے اندر نماز سے پہلے بلا فصل خطبہ پڑھنا، اگر بغیر خطبہ کے نماز جمعہ پڑھی گئی یا وقت سے پہلے خطبہ پڑھا یا نماز کے بعد پڑھا، یا خطبہ پڑھنے میں خطبہ پڑھنے کا ارادہ نہ ہو یا خطبہ و نماز میں زیادہ فاصلہ ہو جائے تو نماز جمعہ درست و جائز نہیں ہے 6. جماعت کا ہونا یعنی امام کے علاوہ کم از کم تین آدمی خطبے کے شروع سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود ہوں ورنہ نماز جمعہ صحیح نہیں ہو گی، یہ ضروری نہیں کہ جو تین آدمی خطبے کے وقت حاضر تھے وہی نماز میں بھی ہوں پس اگر خطبے کے وقت موجود آدمی درمیان میں کسی وقت چلے گئے ان کے بجائے اور تین آدمی آ گئے اس طرح امام کے ساتھ خطبے کے شروع سے پہلی رکعت کے سجدے تک ہر حال میں تین آدمی موجود رہیں تو نماز جمعہ درست ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ تین آدمی ایسے ہوں جو امامت کر سکیں پس اگر عورتیں یا نابالغ لڑکے ہوں تو نماز جمعہ درست نہ ہو گی اسی طرح اگر پہلی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے لوگ چلے جائیں اور تین آدمیوں سے کم باقی رہ جائیں یا کوئی نہ رہے تو نماز جمعہ فاسد ہو جائے گی لیکن اگر سجدہ کرنے کے بعد چلے جائیں تو کچھ حرج نہیں نماز جمعہ درست ہو جائے گی 7.اذنِ عام، یعنی عام اجازت کے ساتھ علی الاعلان نمازِ جمعہ ادا کرنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد کے دروازے کھول دئے جائیں اور ایسے سب لوگوں کو آنے کی اجازت ہو، جن پر جمعہ ادا کرنا فرض ہے پس ایسی جگہ جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہو گی جہاں خاص لوگ آ سکتے ہوں اور ہر شخص کو آنے کی اجازت نہ ہو، اگر کچھ لوگ مسجد میں جمع ہو کر مسجد کے دروازہ بند کر لیں اور نماز جمعہ پڑھیں تو جائز نہیں ہو گی فائدہ:اگر شرائط صحتِ جمعہ سے کوئی شرط نہ پائی جائے اس کے باوجود کچھ لوگ نمازِ جمعہ پڑھیں تو ان کی نماز جمعہ ادا نہ ہو گی، ان پر نماز ظہر ادا کرنا فرض ہے اور یہ نماز نفل ہو جائے گی، چونکہ نماز نفل کا اہتمام سے پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اس لئے اس حالت میں نماز جمعہ پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے
Top