نمازِ خوف کا بیان
1.یہ کوئی الگ نماز نہیں ہے ، بلکہ جہاد کرتے وقت جب فرض و واجب نماز کا وقت آ جائے اور سب کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں دشمن کے حملہ کرنے کا خطرہ ہو یا کسی اور دشمن سے یہ خطرہ ہو تو جماعت کے دو گروہ کر کے ایک گروہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اور دوسراگروہ دشمن کے مقابل رہے جس کی ترکیب آگے آتی ہے یہ نماز کتاب و سنت سے ثابت ہے 2.اس نماز کاسبب خوف ہے اور دشمن کا یقیناً موجود ہونا شرط ہے ، دشمن خواہ انسان ہو جیسے کفار وغیرہ یا درندہ جانور یا اژدھا وغیرہ بڑا سانپ ہو یا آتشزدگی یا ڈوبنے وغیرہ کا خواف ہو سب کے لئے اس نماز کاحکم برابر ہے 3.دشمن یقیناً موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قریب اور سامنے ہو کہ نظر آ رہا ہو اور یقین کے ساتھ یہ خوف ہو کہ اگر سب جماعت میں مشغول ہوں گے تو وہ حملہ کر دے گا اگر دشمن دور ہو تو نماز خوف جائز نہیں 4.نماز خوف کی کیفیت یہ ہے کہ اگر سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر ضد نہ کریں بلکہ اس بات پر راضی ہوں کہ کچھ لوگ بعد میں دوسرے امام کے پیچھے پڑھ لیں گے تو امام کے لئے افضل یہ ہے کہ دو گروہ کرے ایک گروہ کو دشمن کے مقابلے پر بھیج دے اور خود دوسرے گروہ کے ساتھ پوری نماز پڑھ لے، پھر یہ گروہ دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ مقابلے سے واپس آ جائے اور امام ان میں سے کسی آدمی کو حکم کرے کہ امامت کر کے اس گروہ کو پوری نماز پڑھائے اور اگر سب لوگ ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر اسرار کریں تو پھر دو گروہ کر کے نماز پڑھنے کے متعدد طریقے حدیثوں میں آئے ہیں وہ سب معتبر اور جائز ہیں لیکن اس میں فقہ کا اختلاف ہے کہ کون سا طریقہ اولٰی اور بہتر ہے ، امام ابو حنیفہ رحمت اللّٰہ کے نزدیک خضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ ہ کی روایت پر عمل کرنا بہتر ہے کیونکہ یہ قرآن مجید میں مذکورہ کیفیت سے زیادہ ملتی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو اور دوسرا گروہ امام کے ساتھ نماز پڑھے اگر وہ نماز دو رکعت والی ہو یعنی نماز فجر یا جمعہ یا عیدین یا نماز قصر ہو تو جب دوسرا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکے اور سجدے سے سر اٹھائے تو یہ گروہ دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ مقابلے سے واپس آ جائے اور امام اتنی دیر بیٹھا ان کا انتظار کرتا رہے اور ان کے آنے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت شروع کرے، یہ گروہ امام کے پیچھے دوسری رکعت ادا کر کے اور امام کے ساتھ تشہد میں بیٹھے جب امام سلام پھیر دے تو یہ گروہ سلام نہ پھرے اور اٹھ کر دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور دوسرا گروہ نماز کی جگہ پر واپس آ کر دوسری رکعت لاحقانہ یعنی بغیر قرأت کے پڑھے کیونکہ وہ اس رکعت میں لاحق ہے پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ نماز کی جگہ پر واپس آ کر ایک رکعت فرداً فرداً قرأت کے ساتھ مسبوقانہ پڑھے کیونکہ وہ سب مسبوق ہیں اور مسبوق منفرد کے حکم میں ہوتا ہے پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے اگر عیدین کی نماز ہو تو دوسرے گروہ کا ہر شخص اپنی دوسری رکعت میں قرأت کی مقدار اندازاً قیام کرنے کے بعد اپنی اپنی زائد تین تکبیریں کہہ لے پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کرے اور جب پہلا گروہ اپنی مسبوقانہ پہلی رکعت ادا کرے تو وہ بھی قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کرے اور جب پہلا گروہ اپنی مسبوقانہ پہلی رکعت ادا کرے تو وہ بھی قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں کہے اور چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اگر امام اور قوم دونوں مقیم ہوں اور نماز چار رکعت والی ہو تو پہلا گروہ دشمن کے مقابلہ پر جائے اور دوسرا گروہ امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے اس گروہ کے لئے دو رکعتوں کا امام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے اگر یہ گروہ ایک رکعت پڑھے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی پھر قعدہ کرے اور تشہد پڑھے اور تشہد پڑھنے کے بعد یہ گروہ دشمن کو مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ واپس آ جائے ، امام اتنی دیر بیٹھ کر ان کا انتظار کرے پھر ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے اور تشہد، درود و دعا پڑھ کر سلام پھر دے، پہلے گروہ کے مقتدی امام کے ساتھ سلام نہ پھیریں اور دشمن کے مقابلہ پر چلے جائیں اور دوسرا گروہ نماز کی جگہ واپس آ کر دو رکعت قرأت کے بغیر یعنی لاحقانہ پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے پھر دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور پہلا گروہ واپس آ کر دو رکعتیں قرأت کے ساتھ مسبوقانہ پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے، یہ طریقہ مستحب و افضل ہے اس کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں اگر امام مقیم ہو اور جماعت کے لوگ مسافر ہوں یا بعض مقیم اور بعض مسافر ہوں تو وہی طریقہ ہے جو سب کے مقیم ہونے کی صورت میں بیان ہوا ہے ، اور اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہو تو ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے پھر دشمن کو مقابلہ پر چلا جائے اور دوسرا دشمن کے مقابلہ والا گروہ واپس آ کر ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے اور دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے امام تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اور پہلا گروہ واپس آ کر تین رکعت لاحقانہ بغیر قرأت کے پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر کر دشمن کے مقابلہ پر چلا جائے اور دوسرا گروہ واپس آ کر تین رکعتیں مسبوقانہ پڑھے یعنی پہلی رکعت میں الحمد و سورت پڑھے اور دوسری اور تیسری رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اگر چار رکعتی نماز میں امام نے پہلے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے پھر دوسرے گروہ کو ساتھ ایک رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے پھر پہلا گروہ آیا اور امام نے ان کے ساتھ یعنی تیسری رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے پھر دوسرا گروہ آیا اور امام نے ان کے ساتھ چوتھی رکعت پڑھی اور وہ چلے گئے تو سب مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی اسی طرح اگر قوم کے چار گروہ کر کے امام ہر گروہ کے ساتھ ایک ایک رکعت پڑھے تو پہلے اور تیسرے گروہ کی نماز فاسد ہو گی اور دوسرے اور چوتھے گروہ کی نماز صحیح ہو جائے گی پس دوسرا گروہ اپنی بقیہ نماز تین رکعتیں اس طرح پڑھے کہ پہلی دو رکعتوں میں قرأت نہ پڑھے اور ان میں وہ لاحق یعنی حکماً امام کے پیچھے ہے اور تیسری رکعت میں الحمد اور سورت پڑھے کہ اس میں وہ مسبوق ہے اور چوتھا پھر قعدہ کرے پھر دوسری رکعت میں بھی الحمد اور سورت پڑھے اور اس پر قعدہ نہ کرے پھر تیسری رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور قعدہ کر کے تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اگر نماز تین رکعت کی ہو تو پہلے گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے اور دوسرے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اگر پہلے گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں اور دوسرے گروہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی 5.نماز خوف میں حالت نماز میں دشمن کو مقابل جاتے وقت یا نماز پوری کرنے کے لئے وہاں سے واپس آتے وقت یا وضو نہ رہا ہو تو وضو کے لئے جانے آنے میں پیدل چلنا واجب ہے اور یہ چلنا عمل کثیر ہونے کے باوجود معاف ہے اگر ان حالتوں میں سوار ہو کر چلیں گے تو نماز فاسد ہو جائے گی ان حالتوں کےعلاوہ نماز میں کسی اور وجہ سے پیدل چلنے پر بھی نماز فاسد ہو جائے گی 6.نماز کی حالت میں قتال کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی پس اگر نماز میں ایسی صورت پیش آ جائے تو نماز توڑ کر قتال کریں اور نماز بعد میں وقت ہو تو ادا ورنہ قضا پڑھیں 7.نماز خوف میں اگر سجدۂ سہو لازم ہو جائے تو جو مقتدی اس وقت امام کے پیچھے ہیں وہ یعنی دوسرا گروہ، سجدۂ سہو میں امام کی متابعت کرے اور لاحق ( یعنی پہلا گروہ) اپنی نماز کے آخر میں سجدۂ سہو کریں 8.اگر دشمن کے خوف سے بھاگ کر پیدل چل رہا ہو اور نماز کا وقت آ جائے تو پیدل چلتا ہوا نماز نہ پڑھے بلکہ تاخیر کرے اور وقت جاتا رہے تو قضا پڑھے ۹.خوف کی وجہ سے نماز میں قصر کرنا جائز نہیں ہے 10.اگر خوف اس قدر شدید ہو کہ مذکورہ طریقے پر بھی جماعت سے نماز نہ پڑھ سکے اور دشمن سواریوں سے اترنے کی بھی مہلت نہ دے تو سواری پر بیٹھے بیٹھے اکیلے نماز پڑھ لے اور رکوع و سجود اشارہ سے ادا کرے اگر قبلے کی طرف رخ نہیں کر سکتے تو جدھر کو ممکن ہو سکے نماز پڑھ لے، سوار ہو کر جماعت سے نماز نہ پڑھے لیکن اگر دو یا زیادہ آدمی ایک سواری پر ہوں تو اقتدا صحیح ہو جائے گی سواری پر پڑھی ہوئی نماز کا بعد میں اعادہ واجب نہیں ہو گا سواری پر فرض و واجب نماز اس وقت جائز ہے جب دشمن ان کا پیچھا کر رہا ہو اور اگر مسلمان دشمن کا پیچھا کر رہے ہوں تو سواری پر فرض نماز جائز نہ ہو گی 11.اگر نماز کے اندر امن حاصل ہو گیا مثلاً دشمن چلا گیا تو نماز خوف کو پورا کرنا جائز نہیں بلکہ جس قدر نماز باقی ہے اس کو حالت امن کی طرح پڑھیں مثلاً اگر خوف کی وجہ سے قبلے کی طرف منھ نہیں کر سکا تھا تو اب باقی نماز قبلے کی طرف منہ کر کے پوری کرے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی یا جو گروہ اس وقت چل رہا تھا امن ہونے کی صورت میں اب اس کو چلنا درست نہیں ہے ہر گروہ جہاں ہے وہیں اپنی نماز پوری کر لے 12.جن لوگوں کا سفر کسی معصیت کے لئے ہو ان کو نماز خوف پڑھنا درست و جائز نہیں ہے 13.نماز شروع کرنے سے پہلے جو لوگ جنگ میں مصروف ہیں مثلاً تلوار چلا رہے ہیں اور اب نماز کا وقت ختم ہونے کو ہے تو نماز کو موخر کریں اور لڑائی سے فارغ ہو کر نماز پڑھیں 14.تیرنے والا شخص تیرتا ہوا نماز نہ پڑھے اگر نماز کا وقت اخیر ہو جائے اور اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ کچھ دیر ہاتھ پیروں کو حرکت نہ دے اور ڈھیلے کر دے تو اشارہ سے نماز پڑھ لے نماز صحیح ہو جائے گی اگر یہ ممکن نہیں تو نماز صحیح نہ ہو گی
Top