زکوٰۃ متفرق مسائل
1. اگر کسی شخص کو زکوٰۃ کے ادا کرنے میں شک ہوا اور یہ معلوم نہ ہو کہ زکوٰۃ دی ہے یا نہیں دی تو احتیاطاً دوبارہ زکوٰۃ دے ، اسی طرح اگر کوئی شخص متفرق طور پر زکوٰۃ ادا کرتا رہا اور اس کو یاد و حساب میں نہیں رکھا تواس کو چاہئے کہ اٹکل کرے کہ کس قدر ادا کر چکا ہے جس قدر اس کے گمان غالب میں آئے کہ ادا کر دی ہے اس قدر اس کے ذمہ سے ادا ہو گئی باقی ادا کرے اور اگر گمان غالب میں کچھ بھی نہ آئے تو کُل ادا کرے 2. اگر جانوروں میں دو شخص شریک ہوں تو اگر ہر ایک کا حصہ بقدرِ نصاب ہو تو زکوٰۃ واجب ہو گی ورنہ واجب نہ ہو گی، اور اگر ایک کا حصہ بقدرِ نصاب ہو اور دوسرے کا بقدرِ نصاب نہ ہو تو جس کا حصہ بقدرِ نصاب ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہو گی دوسرے پر واجب نہیں ہو گی 3. اگر باغی لوگ بادشاہِ اسلام (خلیفہ) سے باغی ہو کر خراج اور چرنے والے جانوروں کا صدقہ لوگوں سے وصول کر لیں تو ان سے دوبارہ نہیں لیا جائے گا 4. زکوٰۃ کفارات، صدقہ فطر، عشر اور نذر میں قیمت کا دینا جائز ہے پس اگرکسی شخص کے پاس مثلاً دو سو قفیر (ایک پیمانہ کا نام) گندم ہوں جن کی قیمت دوسو درہم ہوتی ہے تو اس کے مالک کو اختیار ہے چا ہے انہی گیہوں میں سے پانچ قفیر گیہوں دے دے اور چاہئے ان کی قیمت پانچ درہم دے دے 5. جانوروں کی زکوٰۃ میں اوسط درجہ کا جانور لیا جائے گا یعنی جس عمر کا جانور واجب ہوا ہے اس عمر کا درمیانی قیمت کا جانور لیا جائے گا اور اگراوسط درجہ کا جانور نہ ہو تو ادنی درجہ کا دے گا اور جس قدر قیمت کا جانور واجب ہوتا ہے اس کی کمی کی رقم بھی ادا کرے گا یا اعلی درجہ کا جانور دے گا اور قدر واجب سے زائد رقم واپس لے لے گا 6. اگر کسی عورت نے چالیس سائمہ بکریوں کے مہر پر نکاح کیا اور بکریوں پر قبضہ کر لیا پھر ان پر ایک سال گزر گیا اس کے بعد دخول سے پہلے اس کے خاوند نے اس کو طلاق دے دی تو کیونکہ نصف مہر کی بکریاں خاوند کو واپسکرے گی اس لئے جو نصف بکریاں اس کے پاس رہیں گی ان کی زکوٰۃ دینی پڑے گی 7. اگر کسی شخص پر زکوٰۃ واجب ہو اور وہ ادا نہ کرتا ہو تو فقیر کو یہ حلال نہیں کہ بغیر اس کی اجازت کے اس کے مال میں سے لے لے اور اگر اسطرح فقیر نے لے لیا تو اگر وہ مال فقیر کے پاس موجود ہے تو مال کے مالک کوواپس لینے کا اختیار ہے اور اگر خرچ ہو گیا تو فقیر اس کا ضامن ہو گا8. اگر بادشاہ خراج یا کچھ مال ظلماً لے لے اور صاحب مال اس کے دینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کی نیت کرے تو اس کے ادا ہونے میں فقہا کا اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی ۹. کسی شخص نے دوسرے شخص کو زکوٰۃ ادا کرنے کے لئے وکیل بنایا تو وکیل کو جائز و اختیار ہے کہ وہ خود کسی غریب کو دے دے یا کسی اور کے سپرد کر دے کہ تم یہ روپیہ زکوٰۃ میں دے دینا اور زکوٰۃ دینے والے کا نام بتانا بھی ضروری نہیں اگر وکیل وہ روپیہ کسی غریب رشتہ دار یا ماں باپ یا اپنی اولاد یا بیوی کو جبکہ یہ فقیر ہوں دے دے گا تو جائز ہے ، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ مالک نے کوئی تعین نہ کیا ہو ورنہ جائز نہیں ، اگر اس کا لڑکا نابالغ اور محتاج و فقیر ہو تو خود وکیل کا فقیر ہونا بھی ضروری ہے اس لئے کہ نابالغ اولاد اپنے باپ کے غنی ہونے سے غنی ہو جاتی ہے وکیل کو خود اپنے لئے زکوٰۃ کا روپیہ رکھ لینا جائز نہیں اگرچہ وہ فقیر ہو لیکن اگر زکوٰۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو وہ خود بھی لے سکتا ہے 10. زکوٰۃ دینے والے نے وکیل کو روپیہ دیا، وکیل نے وہ روپیہ رکھ لیا اور اپنے مال میں سے اتنا روپیہ اس کی زکوٰۃ میں دے دیا تو اگر اس کی یہ نیت ہے کہ اس کے عوض میں وہ اپنے مؤکل کا روپیہ لے لے گا اور وہ روپیہ وکیل کے پاس موجود ہو تو یہ جائز و درست ہے اور اگر وکیل نے مؤکل کا وہ روپیہ پہلے اپنے کام میں خرچ کر لیا پھر اپنا روپیہ اس کی زکوٰۃ میں دیا اس نے اپنے روپیوں کے عوض میں لینے کی نیت نہ کی ہو تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی بلکہ یہ تبرع (نفلی صدقہ) ہو گا اور موکل کی زکوٰۃ کی رقم کا تاوان دے گا11. زکوٰۃ کے وکیل کو یہ اختیار ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسیدوسرے کو وکیل بنا دے 12. عفو میں زکوٰۃ نہیں ہے اور عفو وہ تعداد ہے جو دو نصابوں کے درمیان ہو، سائمہ یعنی جنگل میں چرنے والے جانوروں میں ہمارے تینوں اماموں کے نزدیک عفو ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک نقدی میں بھی ہوتی ہے یعنی امام صاحب کے نزدیک تمام قسم کے مالوں میں ہے اور صاحبین کے نزدیک عفو صرف سائمہ جانوروں میں ہوتی ہو نقدی میں نہیں لہذا امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر دو سو درہم پر زیادتی ہو تو جب تک چالیس درہم نہ ہو جائیں عفو(معاف) ہیں اس میں زیادتی پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے اور جب پورے چالیس درہم زائد ہو جائیں تو ایک درہم مزید لازم آئے گا یعنی چھ درہم دئے جائیں اسی طرح ہر چالیس درہم پر ایک درہم زکوٰۃ واجب ہوتی جائے گی اور اس سے کم پر کچھ لازم نہیں ہو گا اور صاحبین کے نزدیک دو سو درہم سے خواہ تھوڑا زیادہ ہو یا بہت وہ معاف نہیں ہے بلکہ کل مال کا چالیسواں حصہ لازم آتا و یہی احوط ہے اور فتوی کے لئے یہی مختار ہے فتاویٰ دار العلوم دیوبند وغیرہ سے یہی معلوم ہوتا ہو جیسا کہ سونے چاندی کی زکوٰۃ میں بھی بیان ہو چکا ہے 13. اگر زکوٰۃ واجب ہو جانے یعنی سال پورا گزرنے کے بعد نصاب خود ہلاک ہو جائے مثلاً چوری ہو جائے یا وہ خیرات کر دے تو زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی بلکہ ساقط ہو جاتی ہے خواہ نصاب سونے چاندی اور مال تجارت کا ہو یا سائمہ جانوروں کا ہو، اس لئے اگر زکوٰۃ واجب ہونے کے بعد سارا مال ہلاک ہو گیا مثلاً چوری ہو گیا یا اس نے خود سارا مال خیرات کر دیا تو تمام مال کی زکوٰۃساقط ہو جائے گی اگر کچھ مال ہلاک ہو گیا تو حساب سے اس قدر مال کی زکوٰۃساقط ہو گی، مثلاً اگر کسی کے پاس دو سو درہم تھے ایک سال کے بعد اس میں سے ایک سو چوری ہو گئے یا اس نے خیرات کر دئے تو ان ایک سو درہم کی زکوٰۃ معاف ہو گئی صرف ایک سو درہم کی زکوٰۃ دینی پڑے گی اگر زکوٰۃ کی ادائگی میں بہت تاخیر کر دی یہاں تک کہ مال ہلاک ہو گیا تب بھی صحیح یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ ساقط ہو گئی عام فقہا کے نزدیک یہی حکم ہے ، اور اگر سال گزرنے کے بعد مال خود ہلاک نہیں ہوا بلکہ صاحب مال نے قصداً اس کو ہلاک کر دیا تواس سے زکوٰۃ ساقط نہیں ہو گی بلکہ دینی پڑے گی اور اگر سال پورا ہونے سے پہلے قصداً ہلاک کر دیا تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ اس مال پر سال کا گزرنا نہیں پایا گیا اور اگر ایسا اس لئے کیا تاکہ اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہونے پائے مثلاًسائمہ کے نصاب کو کسی دوسرے نصاب سے بدل دیا یا سال پورا ہونے سے پہلے اپنی ملکیت سے نکال کر دوسرے شخص کی ملکیت میں دے دیا اور سال پورا ہونے کے بعد پھر اپنی ملکیت میں لے لیا تو امام ابو یوسف کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اس لئے کہ یہ وجوب کو روکنا ہے غیر کے حق کو باطل کرنا نہیں ہے اور یہی اصح ہے اور امام محمد کے نزدیک مکروہ ہے اس لئے کہ اس میں فقرا کے حق کو نقصان پہچانا ہے اور نتیجہ اس کے حق کو باطل کرنا ہے بعض فقہا نے کہا کہ زکوٰۃ کے بارے میں فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے اور یہ فیصلہ اچھا ہے اور مال کا خود قصداً ہلاک کر دینا یہ ہے کہ صاحبِ مال اپنے مالِ نصاب کو بغیر کسی ایسے بدل کے جو اس کا قائم مقام ہوتا ہو اپنی ملکیت سے خارج کر دے پس مالِ تجارت کا غیر مالِ تجارت سے بدلنا قصداً ہلاک کرنا ہے تجارت کے ایک مال کو دوسرے مالِ تجارت سے بدلنا ہلاک کرنا نہیں ہے یہ حکم بلا خلاف ہے خواہ اُسی جنس کے مال سے بدلے یا دوسری جنس کے مال سے بدلے اس لئے کہ دوسرا مال پہلے مال کا قائم مقام ہو جائے گا پس سونے چاندی کو آپس میں بدلنا یا مال تجارت سے بدلنا ہلاک کرنا نہیں ہے اور سائمہ کو فروخت کرنا یا بدلنا ہر حال میں قصداً ہلاک کرنا ہے خواہ سائمہ کو اس جنس کے سائمہسے تبدیل کیا ہو یا غیر جنس سائمہ سے بدلا ہو یا نقدی یا مال تجارت سے بدلا ہو، پس جب تبدیل کیا ہوا سائمہ وغیرہ خود ہلاک ہو گیا تو زکوٰۃ واجب ہو گی یہ حکم اس وقت ہے جب یہ استبدال سال گزرنے کے بعد کیا ہو لیکن اگر سال کے اندر اندر استبدال کر لیا ہو تو جب تک اس تبدیل شدہ پر نئے سرے سے سال نہیں گزر جائے گا زکوٰۃ واجب نہیں ہو گی اگر کسی نے سائمہ کا گھانس یا پانی نہیں دیا اور باندھ رکھا یہاں تک کہ ہلاک ہو گیا تو اس میں فقہا کا اختلاف ہے ، راجح قول یہ ہے کہ یہ خود ہلاک کرنا ہے اور وہ شخص زکوٰۃ کا ضمان دے گا مالدار مقروض کو قرضہ سے بری کر دینا بھی مال کو خود ہلاک کر دینا ہے لیکن تنگدست مقروض کو قرضہ معاف کر دینا خود ہلاک کر دینا نہیں ہے بلکہ مال کا خود ہلاک ہو جانا ہے
Top