شر یعنی کھیتی اور پھلوں کی زکوٰۃ کا بیان
1. عشر یعنی کھیتی یا پھلوں کی زکوٰۃ فرض ہے اور اس کی فرضیت کا حکم بھی زکوٰۃ کی طرح ہے یعنی فرض ہونے کے بعد فوراً ادا کرنا واجب ہے اور تاخیر کرنے سے گناہگار ہو گا 2. اس کے واجب ہونے کی شرطیں یہ ہیں اول مسلمان ہونا دوم اس کی فرضیت کا علم ہونا، عاقل و بلوغ وجوبِ عشر کے لئے شرط نہیں ہے اس لئے لڑکے اور مجنون کی زمین میں بھی عشر واجب ہوتا ہے ، اسی طرح جس شخص پر عشر واجب ہو چکا ہے اگر وہ مر جائے اور اناج موجود ہو تو اس میں سے عشر لیا جائے گا لیکن زکوٰۃ کا یہ حکم نہیں ہے اسی طرح زمین کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے پس وقف کی زمین اور غلامِ ماذون و مکاتب کی زمین میں بھی عشر واجب ہے سوم وہ زمین عشری ہو پس جو پیداوار خراجی زمین سے حاصل ہواس میں عشر واجب نہیں ہو گا چہارم وہ پیدا وار اس قسم کی ہو جس کی زرائتسے زمین کا فائدہ و ترقی مقصود ہوتی ہو، پس جس پیداوار سے زمین کی آمدنی لینا یا زمین کو فائدہ مند بنانا غالب مقصود نہ ہو اس میں عشر واجب نہیں ہے مثلاً لکڑی ( ایندھن) گھانس، نرکل، چھاؤ اور کھجور کے پتوں میں عشر واجب نہیں ہو گا گیہوں ، چنا، چاول، ہر قسم کا غلہ ساگ، ترکاریاں ، سبزیاں ، پھل، پھول،ککڑی، خربوزہ، کھجوریں ، گنّا، زیرہ، کھیرا، شہد وغیرہ پر عشر واجب ہو گا،عشری زمین یا جنگل اور پہاڑوں سے جو شہد حاصل کیا جائے اس میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک اس میں عشر واجب ہو گا اسی پر فتویٰ ہے جیسا کہ کتب فتاویٰ سے ظاہر ہے اسی طرح جو پھل ایسے درختوں سے جمع کئے جائیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں مثلاً جنگل اور پہاڑوں کے درخت تو ان میں بھی یہی اختلاف ہے کہ طرفین کے نزدیک عشر واجب ہے درختوں پر عشر واجب نہیں ہے وہ بمنزلہ زمین کے ہیں کیونکہ وہ زمین کے تابی ہیں اور زمین کے ساتھ بکتے ہیں اسی طرح گوند رال، لاک وغیرہ اور دواؤں ہلیلہ، کندر،اجوائن، کلونجی، خطمی وغیرہ پر بھی عشر واجب نہیں ہوتا لیکن اگر زمین کو انہی چیزوں میں لگا دے گا تو عشر واجب ہو گا، کپاس بھی پھل میں داخل ہے اوراس میں عشر ہے اگر گھانس دانہ بننے سے پہلے کاٹ لی جائے تو اس میں عشر واجب ہو گا، ساگ و سبزیات کے بیجوں میں عشر نہیں ہے اگر کسی نے گھر کے صحن وغیرہ میں کوئی پھلدار درخت لگائے اور ان میں پھل آیا، یا اناج و سبزیوغیرہ کچھ بویا تو اس گھر کے باغ یا کھیت کی پیداوار میں عشر واجب نہیں ہو گا کیونکہ وہ گھر کے تابع ہے 3. پیداوار میں عشر واجب ہونے کے لئے کوئی مقدارِ نصاب مقرر نہیں ہے خواہ پیداوار کم ہو یا زیادہ سب میں عشر واجب ہوتا ہے بشرطیکہ کم از کم ایک صاع ہو اور اس میں یہ بھی شرط نہیں ہے کہ وہ چیزیں تمام سال تک باقی رہیں پس سبزیات وغیرہ میں بھی عشر واجب ہے اور عشر واجب ہونے کے لئے پوراسال گزارنا بھی شرط نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت میں زمین کی پیداوار میں ہے اور اس لئے پیداوار سال میں کئی بار حاصل ہو تو ہر بار عشر واجب ہو گا 4. اگر زمین ایسی ہو جس کو بارش کے پانی نے سیراب کیا ہو یا ندی، نالوں اور نہروں کے جاری پانی سے بغیر آلات کے سیراب ہوئی ہو تو اس میں عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے ، اور اگر چرس یا رہٹ وغیرہ آلات کے ذریعہ پانی دیا ہو، یا پانی مول لے کر سیراب کیا ہو تو اُس زمین کی پیداوار میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے اگر سال کا کچھ حصہ ندی نالوں وغیرہ سے پانی دیا اور کچھ آلات یعنی چرس اور رہٹ وغیرہ سے دیا تو سال کے نصف سے زیادہ حصہ میں جس طرح پانی دیا جائے گا اس کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر دونوں طرح برابر پانی دیا ہو تو بیسواں حصہ واجب ہے کھیتی کے اخراجات مثلاً کام کرنے والوں کی مزدوری بیلوں وغیرہ کا خرچہ، نہروں کی کھدائی، محافظ کی اجرت اور بیج وغیرہ اس میں سے وضع نہیں کئے جائیں گے بلکہ ان کو منہا کئے بغیر کا آمدنی میں سے دسواں یا بیسواں حصہ لیا جائے گا 5. خراجی پانی وہ ہے جن پر پہلے کفار کا قبضہ تھا پھر مسلمانوں نے ان سے زبردستی لے لیا ہو اس کے علاوہ سب پانی عشری ہیں ، دریاؤں اور بارشوں کا پانی تو عشری ہے ہی کنوئیں اور چشمے وغیرہ جن کو اسلام کے غلبہ کے بعدمسلمانوں نے بنایا ہو یا جن کا کچھ حال معلوم نہ ہو وہ سب اسلامی ہوں گے اور ان کا پانی عشری ہو گا 6. اگر کسی شخص نے عشری زمین اجارہ پر دی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک عشر مالک پر واجب ہو گا اور صاحبین کے نزدیک مستاجر پر واجب ہو گا بعض کے نزدیک صاحبین کے قول پر فتویٰ ہے اور متاخرین کی ایک جماعت نے امام صاحب کے قول پر فتویٰ دیا ہے پس اگر مالک زمین کی پوری اجرت لیتا ہو اورمستاجر کے پاس بہت کم بچے تو امام صاحب کے قول پر فتوی دیا جائے گا اور عشر مالکِ زمین سے لیا جائے اور اگر مالک کم اجرت لے اور مستاجر کے پاس زیادہ بچے تو فتویٰ صاحبین کے قول پر دیا جائے اور عشر مستاجر سے لیا جائے واللہ عالم بالصواب 7. اگر کسی مسلمان نے زمین مانگ کر زراعت کی تو زمین مانگ کر لینے والے پر عشر واجب ہو گا اور اگر کافر کو زمین مانگی ہوئی دی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک مالکِ زمین پر عشر واجب ہو گا اور صاحبین کے نزدیک اس کافر پر عشر واجب ہے امام صاحب سے بھی ایک روایت میں اسی طرح ہے لیکن امام محمد کے نزدیک ایک عشر واجب ہو گا اور امام ابویوسف کے نزدیک دو عشر واجب ہوں گے 8. اگر زمین مزارعت( کھیتی کی شرکت) پر دی تو صاحبین کے قول کے بموجب کاشتکار اور زمیندار دونوں پر اپنے اپنے حصہ کے مطابق عشر واجب ہو گا اسی پر فتویٰ ہے ۹. اگر عشری زمین کو کوئی شخص غصب کر کے اس میں کھیتی کرے ، پھراس میں زراعت سے کچھ نقصان نہ ہو تو زمین کے مالک پر عشر واجب نہ ہو گا بلکہ غاصب پر واجب ہو گا اور اگر زراعت سے اس میں نقصان ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک زمین کے مالک پر عشر واجب ہو گا صاحبین کے نزدیک پیداوار میں ہے 10. عشری زمین جس میں زراعت تھی اور وہ تیار ہو چکی تھی، اگر اس کو مالک نے مع زراعت کے فروخت یا فقط زراعت بیچی تو بیچنے والے پر عشر واجب ہو گا خریدار پر نہ ہو گا اور اگر زمین بیچی اور زراعت ابھی سبز تھی اگر خریدار نے اس کو اسی وقت جدا کر دیا تو عشر بیچنے والے پر ہو گا اور اگر پکنے تک اس کو رکھا تو عشر خریدار پر واجب ہو گا یعنی اگر صرف کھیتی بیچی اور وہ پک چکی ہے یا ابھی نہیں پکی لیکن خریدار نے مالک زمین کی اجازت سے پکنے تک بدستور رہنے دیا تو عشر خریدار پر ہے اور اگر زمین کھیتی کے بغیر بیچی اور اس کو خریدار کے سپرد کر دیا اور فصل کے لئے تین مہینے ابھی باقی ہیں تو عشر خریدار پر ہے ورنہ بائع پر ہے ، اور اگر زمین کو کھیتی کے ساتھ بیچا اور وہ کھیتی ابھی کچی (سبز) ہے تو ہر حال میں خریدار پر عشر ہے ، اور اگر دانہ بن چکا تھا اور کھیتی پک چکی تھی تو عشر بائع پر ہے اور اگر خریدار نے کسی دوسرے کے ہاتھ بیچ دیا اور اس نے تیسرے کے ہاتھ بیچ دیا یہاں تک کہ زراعت کا وقت جاتا رہا تو عشر کسی پر لازم نہیں ہو گا 11. جس زمین کا کوئی مالک نہ ہو یعنی سرکاری زمین ہو اور وہ حکومت کواس کا محصول دیتے ہوں تو ان پر عشر واجب نہیں ہے 12. اگر عشری اناج کو بیچا تو صدقہ وصول کرنے والے کو اختیار ہے کہ خریدار سے اس کا عشر لے یا بائع سے لے 13. عشر کے واجب ہونے کا وقت امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ ہے کہ جب کھیتی اُگ جائے اور پھل ظاہر ہو جائیں اور امام ابو یوسف کے نزدیک کھیتی یا پھل پکنے کے وقت ہے اور امام محمد کے نزدیک کاٹ کر اور روند کر دانے نکالنے کے وقت ہے ( امداد الفتاوی میں فتوی کے لئے امام ابو یوسف کا قول اختیار کیا گیا ہے ) اگر اپنی زمین کا عشر زراعت کرنے سے پہلے یا بیج بونے کے بعد اگنے سے پہلے ادا کر دیا تو جائز نہیں اور اگر بونے اور اگنے کے بعد ادا کیا تو جائز ہے اگر پھلوں کا عشر پھلوں کے ظاہر ہونے کے بعد دیا تو جائز ہے اور اگر پھلوں کے ظاہر ہونے سے پہلے دیا تو جائز نہیں ہے 14. اگر عشر ادا کرنے سے پہلے اس کی پیداوار کھائے تو اس کے عشر کا ضمان دے گا عشر جدا کرنے کے بعد باقی مال کا کھانا حلال ہے ، اسی طرح اگر کل پیداوار کا عشر ادا کرنے کا ارادہ ہے تب بھی کھانا حلال ہے اور اگر دستورکے موافق تھوڑا سے کھا لے تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے 15. اگر فصل کٹنے کے بعد اس کے فعل کے بغیر کچھ پیداوار تلف یا چوری ہو گئی تو جس قدر باقی ہے اس میں عشر واجب ہو گا ضائع شدہ میں واجب نہیں ، اگر سب پیداوار ہلاک ہو جائے تو کل کا عشر ساقط ہو جائے گا، اگر مالک خود ہلاک کر دے تو عشر ضامن ہو گا اور وہ اس کے ذمہ قرض ہو جائے گا اور اگر مالک کے علاوہ کوئی اور شخص ہلاک کر دے تو مالک اس سے ضمان لے گا اور اس میں سے عشر ادا کرے گا 16. مرتد ہونے سے عشر ساقط ہو جاتا ہے 17. اگر مالک وصیت کئے بغیر مر جائے تب بھی عشر ساقط ہو جائے گا جبکہاس نے پیداوار کو خود تلف کر دیا ہو اور اگر کوئی شخص جس پر عشر تھا مرگیا اور اناج موجود ہے تو اس میں سے عشر لیا جائے گا بخلاف زکوٰۃ کے جیساکہ اوپر بیان ہوا
Top