جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے
1. زکوٰۃ کا مال کافروں کو دینا اگرچہ ذمی ہوں بالاتفاق جائز نہیں ہے اِسیطرح عشر و خراج بھی ان کو دینا جائز نہیں ہے نفلی صدقہ کافروں کو دینا بالاتفاق جائز ہے صدقہ فطر و نذر و کفارہ یعنی باقی تمام واجب صدقات کے دینے میں اختلاف ہے امام ابوحنیفہ و امام محمد کے نزدیک ان کا ذمی کافر کو دینا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ مسلمان فقرا کو دیا جائے اس کو ترجیع ہے حربی کافرمستامن ( یعنی جو امن میں آیا ہوا ہو ) ذمی کافر کے حکم میں ہے اور حربی کافر محارب ( لڑنے والا) کو کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں ہے 2. مالدار کو جو نصاب کا مالک ہو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے خواہ وہ نصاب بڑھنے والے مال کا ہو یا نہ بڑھنے والے مال کا ہو لیکن اس مال کا اس کی ضروریات اصلیہ مثلاً رہنے کا مکان، گھر کا سامان، کپڑے ، خادم، سواری ہتھیار اور کتابیں وغیرہ سے فارغ ہونا شرط ہے بڑی بڑی دیگیں ، بڑے بڑے فرش اور شامیانے وغیرہ ایسی چیزیں جن کی برسوں میں کبھی کبھار ضرورت پڑتی ہوں وہ ضروریات اصلیہ میں شامل نہیں ہیں ایسے سامان والے شخص کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے 3. غنی کا غلام اگر مکاتب نہ ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور یہ حکماس وقت ہے جب کہ اس غلام پر اتنا قرض نہ ہو جو اس کے کسب و رقبہ(ذات)کو محیط ہو لیکن اگر یسا ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے غنی کے مکاتب غلام کو زکوٰۃ دینا جائز ہے مالدار آدمی کی چھوٹی اولاد کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اس لئے کہ باپ کے مالدار ہونے سے نابالغ اولاد بھی مالدار شمار ہو گی مالدار آدمی کی بالغ اولاد کو جب کہ فقیر ہوں زکوٰۃ دینا مطلقاً جائز ہے ، مالدار آدمی کی عورت یا بالغ بیٹی اگر فقیر ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ باپ اور خاوند کے مالدار ہونے سے بیوی یا بیٹی مالدار نہیں ہو جاتی، مالدار آدمی کا باپ اگر مفلس ہے تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے کیونکہ بیٹے کے مالدار ہونے سے باپ مالدار شمار نہیں ہوتا مالدار عورت کے مفلس نابالغ لڑکے کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے مالدار ہونے سے مالدار شمار نہیں ہو گا 4. اپنے اصل یا ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اوپر کے لوگ اور اپنے فروع بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہم نیچے کے لوگ ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں بلکہ ہر واجب صدقہ کفارات صدقہ فطر اور صدقہ نذر کا دینا بھی جائز نہیں ہے لیکن نفلی صدقہ ان کو دینا جائز ہے بلکہ اولیٰ و مستحسن ہے ، ان اصول و فروع رشتوں کے سوا باقی رشتے داروں مثلاً بھائی بہنوں ، چچا چچی، خالہ خالوؤں وغیرہ کو دینا جبکہ وہ فقیر ہوں زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ کا دینا جائز بلکہ اولیٰ ہے سوتیلی ماں اپنے بیٹے کی بیوی اور اپنی بیٹی کے خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اور اصول و فروع اور بیوی کے علاوہ جس رشتہ دار کا نفقہ اس پر واجب ہے اگر وہ اس رشتے دار کو زکوٰۃ دے تو جائز ہے جبکہ اس زکوٰۃ کو نفقہ کے حساب میں شمار نہ کرے ، اور یہ بات مکروہ ہے کہ اپنے غریب والدین کو زکوٰۃ دینے کے لئے حیلہ کیا جائے کہ زکوٰۃ کا مال کسی فقیر کو دیا جائے پھراس فقیر کو کہا جائے کہ وہ اس کے والدین کو دے دے 5. خاوند کا اپنی بیوی کو اور بیوی کا اپنے خاوند کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے 6. اپنی خوشدامن(ساس) کو جبکہ وہ نصاب کی مالک نہ ہو زکوٰۃ دینا جائز ہے 7. اپنے غلام و مکاتب و مدبر، ام الولد اور معتق البعض غلام کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے گھر کے نوکروں ، خدمتگاروں ، ماما دائی کھلائی وغیرہ کو زکوٰۃ دینادرست ہے لیکن ان کی تنخواہ میں نہ دے بلکہ تنخواہ سے زائد ان کو انعام کہہ کر دے دے اور اپنے دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو جائز ہے 8. زکوٰۃ و دیگر صدقات واجبہ کا مال بنی ہاشم کو دینا جائز نہیں ہے اور بنی ہاشم سے مراد حضرت علی، حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل اور حارث بن عبد المطلب کی اولاد ہیں ان کے علاوہ جو بنی ہاشم ہیں مثلاً ابو لہب کی اولاد ان کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اوقاف کی آمدنی بنی ہاشم کو دینا جائز ہے خواہ وقف کرنے والے نے ان کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو اور یہی حق ہے کیونکہ وقف کا صدقہ نفلی صدقے کی مانند ہے اور نفلی صدقہ بنی ہاشم کو دینا بالاجماع جائز ہے سید ( بنی ہاشم) کی زوجہ اگر غیر سید (غیر بنی ہاشم) مثلاً پٹھانی وغیرہ ہو اور وہ غریب ہو تو اس کو صدقہ فطر و زکوٰۃ کا لینا درست ہے اوراس پر کچھ گناہ نہیں ہے نیز دینے والوں کا صدقہ فطر و زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۹. بنی ہاشم کے غلاموں کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں 10. زکوٰۃ کے مال سے مسجد بنانا، پل بنانا، پانی کی سبیل بنانا، راستہ بنانا، نہر بنانا، حج و جہاد کے واسطے دینا اس میں کسی لا وارث میت کی کفن دینا اور میت کا قرض ادا کرنا آزاد کرنے کے لئے غلام خریدنا یا کسی اور نیک کام میں لگانا اور وہ سب صورتیں جس میں اس کو مالک نہیں بنایا جاتا جائز نہیں ہے 11. مال زکوٰۃ ایسے بدعتی کو دینا جائز نہیں ہو جس کی بدعت کفر تک پہنچا دے مثلاً جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی بعض صفات کو حادث کہتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی صفات میں تشبیہ کے قائل ہیں جیسے کرامیہ ان کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے 12. اگر اٹکل کرنے کے بعد ایسے شخص کو زکوٰۃ دے دی جس کو وہ اپنے گمان میں زکوٰۃ کا مصرف سمجھتا ہے پھر اس کے خلاف ظاہر ہوا مثلاً ظاہر ہوا کہ وہ مالدار ہے یا سید ہے تو اس کی زکوٰۃ جائز ہو گی لیکن اگر وہ اس کا غلام یا مکاتب ہو تو جائز نہیں ہو گی اور اٹکل اس وقت کی جائے گی جبکہ یہ شک ہو جائے کہ وہ شخص زکوٰۃ کا مصرف ہے یا نہیں ، اور ایسے شخص کے بارے میں اٹکل کرنے کے بعد جو کچھ گمانِ غالب میں آئے اُس پر عمل کرنا چاہئے اگر ایسیحالت میں اٹکل کے ذریعہ گمان حاصل کئے بغیر یا شک کے بعد اس گمان سے کہ یہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے کسی کو زکوٰۃ دے دی پھر ظاہر ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے تو یہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور اگر بعد میں کچھ بھی ظاہر نہ ہوا تب بھی ادا نہیں ہو گی لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ مصرف ہے تو ادا ہو جائے گی یعنی اگر کسی شخص کو زکوٰۃ دیتے وقت شک تھا اس نے تہری(اٹکل) نہ کی لیکن تہری تو کی لیکن یہ ظاہر نہ ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف ہے یا گمان غالب یہ ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے اس کے باوجود اس کو زکوٰۃ دے دی تو وہ ادا نہ ہو گی لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ زکوٰۃ کا مصرف تھا تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی فقیروں کی صف میں دیکھ کر فقیر گمان کرنا یا فقیروں جیسی شکل و صورت بنائے ہونا یا فقیر جیسا عمل کرنا یہ سب اس باب تہری ( اٹکل کرنے ) میں داخل ہیں
Top