بیت المال کے اقسام اور اس کے مصارف
بیت المال میں جو مال رکھا جاتا ہے وہ چار قسم پر ہے اول چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ اور عشر و اموالِ ظاہرہ کی زکوٰۃ جس کی تفصیل عشر کی بیان میں گزری ہے ان کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں جو کہ بیان ہو چکے ہیں دوم غنیمتوں ، کانوں اور دفینوں کا مال اس کے مصارف اس زمانے میں تین قسم کے لوگ ہیں یہ یتیم مسکین اور ابن السبیل سوم خراج و جزیہ اور وہ مال جو عاشر ذمی کافروں اور مستامن حربیوں کے تاجروں سے لیتا ہے اس مال کومسلمانوں کی مصلحتوں میں خرچ کیا جائے یعنی لڑنے والوں کے عطیات دینے ،حدود ملک کی حفاظت، قلعوں کے بنانے اور ملک کے راستوں کی حفاظتی چوکیاں قائم کرنے ، پل وغیرہ بنانے اور درست کرانے ، بڑی نہروں کو کھودنے ، مسافرخانے ، مسجدیں بنانے دریاؤں کا پانی روکنے کے لئے بند بنانے میں خرچ کیا جائے ، قاضیوں ، مفتیوں ، محتسبوں ، معلموں اور طالبعلموں کا روزینہ بھی اس میں سے دیا جائے چہارم وہ اموال جو پڑے ہوئے ملیں جس مال کا کوئی وارث نہ ہو یہ مال مریضوں کے خرچ اور ان کی دواؤں میں خرچ کریں بشرطیکہ وہفقیر ہو، اور ان مُردوں کے کفن میں جن کے پاس مال نہ ہو اور لا وارث فقیر بچوں میں جو کہیں پڑے ہوئے ملیں اور ان کی خطا کے جرمانے میں اور جو شخص کسب سے عاجز ہو اس کے کھانے پہننے وغیرہ میں اور اسی قسم کے دیگر کاموں میں صرف کرے خلاصہ یہ کہ اس کا مصرف عاجز فقرا ہے بادشاہ اسلام کو چاہئے کہ چار بیت المال بنائے یعنی ہر قسم کے مال کے لئے الگ الگ بیت المال ہو، ایک کا مال دوسرے میں شامل نہ کیا جائے اگر ان میں سے کسیقسم میں کوئی مال نہ ہو تو بادشاہ کو جائز ہے کہ دوسری قسم میں سے قرض لے کر اس کے مصارف میں خرچ کر دے اور جب اس بیت المال کی رقم آ جائے وہ قرضہ اس سے ادا کر کے اس بیت المال کو واپس کر دے جس سے قرض لیا تھا لیکن جو مصارف ان میں مشترک ہوں اگر ان میں خرچ کیا ہو تو واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے مثلاً صدقات یا غنیمتوں کا مال خراج والوں پر صرف کیا ہو اور وہ فقیر ہوں تو اب اس بیت المال کو کچھ بھی واپس نہ کیا جائے کیونکہ فقیر ہونے کی وجہ سے وہ ان صدقات کے بھی مستحق ہیں بادشاہِ اسلام پر واجب ہے کہ حق داروں کو ان کے حقوق پہنچائے اور مال کو ان سے روک کر نہ رکھے ، اور ان کو ان کی ضرورت اور علم و فضل کے مطابق دے اگر اس نے اس میں قصور کیا تو اللّٰہ تعالیٰ اس سے حساب لے گا بادشاہِاسلام اور اس کے مددگاروں کو بیت المال سے اِسی قدر لینا حلال ہے جو کہ ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لئے کافی ہو اگر بادشاہ اس میں قصور کرے گا تو اس کا وبال اس کی گردن پر ہو گا
Top