قربانی کے مسائل: قربانی واجب ہے
ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے۔ اس بارے میں قر آن وسنت میں کئی دلائل موجود ہیں۔ چند یہ ہیں: (1)’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘(الکوثر:2) ترجمہ: آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ مشہورمفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں۔ ’’قَالَ عِکْرَمَۃُ وَعَطَا ئُ وَقَتَا دَۃُ فَصَلِّ لِرَ بِّکَ صَلوٰۃُ الْعِیْدِ یَوْمَ النَّحْرِ وَنَحْرُ نُسُکِکَ فَعَلیٰ ھٰذَا یَثْبُتُ بِہِ وُجُوْبُ صَلوٰۃِ الْعِیْدِ وَ الْاُضْحِیَّۃِ ‘‘(تفسیرمظہری :ج:10:ص:353) ترجمہ: حضرت عکرمہ،حضرت عطاء اورحضرت قتادۃ رحمہم اللہ فرماتےہیں کہ ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں’’فصل‘‘سے مراد’’عید کی نماز‘‘ اور ’’وانحر‘‘سے مراد ’’قربانی ‘‘ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز عید اور قربانی واجب ہے۔ (2)علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ اپنی تفسیر’’احکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں۔ ’’قَالَ الْحَسَنُ صَلوٰۃُ یَوْمِ النَّحْرِ وَنَحْرُ الْبَدَنِ …قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ ھٰذَاالتَّاوِیلُ یَتَضَمَّنُ مَعْنَیَیْنِ؛اَحَدُھُمَا اِیْجَابُ صَلوٰۃِ الْاَضْحیٰ وَالثَّانِیْ وُجُوْبُ الْاُضْحِیَّۃِ‘‘(احکا م القر آن للجصا ص ج3ص 419 تحت سورۃ الکوثر) ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فر مایاکہ اس آیت ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں جو نماز کا ذکر ہے اس سے عید کی نماز مراد ہے اور ’’وانحر‘‘سےقربانی مراد ہے۔ حضرت ابو بکر جصا ص رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ اس سے دو با تیں ثا بت ہو تی ہیں : 1: عید کی نماز واجب ہے۔ 2: قربانی واجب ہے۔ (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ’’اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَا نَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرَبَنَّ مُصَلَّا نَا‘‘ (سنن ابن ماجہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،مسنداحمد ج2ص321 رقم8254، السنن الکبریٰ ج9ص260کتاب الضحایا،کنز العمال رقم 12261) ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کر ے تو وہ ہما ری عید گاہ کے قر یب نہ بھٹکے۔ وسعت کے با وجود قربانی نہ کرنے پر آپ ﷺ نے سخت وعید ارشاد فر ما ئی اور وعید ترک واجب پر ہو تی ہے۔ تومعلوم ہوا قربانی واجب ہے۔ (4) حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ’’کُنَّاوُ قُوْفاً عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَۃَ فَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃً وَعَتِیْرَۃً‘‘ (سنن ابن ماجہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،سنن نسا ئی ج2ص 188) تر جمہ: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے لوگو ! ہرگھروالوں پر ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔ اس حدیث سے دوقسم کی قربانیوں کا حکم معلوم ہوا ایک عید الاضحیٰ کی قربانی اور دوسرا عتیرہ۔ فا ئدہ: ’’عتیرہ ‘‘اس قربانی کو کہا جاتا ہے جو زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں بتوں کے نام پر ہوتی تھی پھراسلام آنے کے بعد اللہ تعالی کے نام پر ہونے لگی، لیکن بعد میں اسے منسوخ فرمادیاگیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ’’نَھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْفَرْعِ وَالْعَتِیْرَۃِ‘‘(سنن النسائی ج2 ص188 کتا ب الفرع والعتیرہ) ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرع اور عتیرہ سے منع فرما دیا۔ فائدہ: ’’فرع‘‘ اس بچہ کو کہا جاتا تھا جو اونٹنی پہلی مرتبہ جنتی تھی اور اس کو بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا، ابتدا اسلام میں یہ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح ہوتی رہی لیکن بعداسے میں منسوخ کر دیا گیا۔(زھر الربیٰ علی النسائی للسیوطی ج2 ص188) (5) حضرت جندب بن سفیا ن البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں۔ ’’شَھِدْتُّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْ مَ النَّحْرِ فَقَالَ : مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلوٰۃِ فَلْیُعِدْ مَکَانَھَا اُخْریٰ وَمَنْ لَّمْ یَذْ بَحْ فَلْیَذْبَحْ‘‘ (صحیح البخاری ج2ص843 باب من ذبح قبل الصلوٰۃ اعاد) ترجمہ: میں نبی ﷺ کی خدمت میں عید الاضحی کےدن حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے ) ذبح نہیں کیا تو اسے چا ہئے کہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کر ے۔ اس میں آپ علیہ السلام نے عید سے پہلے قربانی کرنے کی صورت میں دوبارہ لوٹانے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے۔
Top