وضو کے متفرق مسائل
جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ دو قسم کی ہیں 1. جو انسان کے جسم سے نکلیں۔ جیسے پیشاب، پاخانہ، ریح وغیرہ 2. جو انسان پر طاری ہو جیسے بیہوشی، نیند وغیرہ جسم انسانی سے نکلنے والی چیزوں کی بھی دو قسمیں ہیں 1. جو پیشاب و پاخانہ کے راستہ سے نکلے ، 2. وہ جو باقی جسم کے کسی مقام سے نکلے جیسے قے ، خون وغیرہ ان دو راستوں کے علاوہ جسم کے باقی حصہ کے کسی مقام سے کچھ نکلنے کی یہ صورتیں ہیں۔ کوئی ناپاک چیز نکلے اور جسم پر بہے مثلاً خوں ، کچ لہویا پیپ وغیرہ تو وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ تہوڑی سی بہے۔ اگر آنکھ میں خون نکل کرآنکھ میں ہی بہا اور باہر نہیں نکلا تو وضو نہیں ٹوٹا کیونکہ آنکھ کو اندر کا حصہ نہ وضو میں دھونا فرض ہے نہ غسل میں ، اور اگر باہر نکل کر بہا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ قے میں اگر پت، خوں یا کھانایا پانی منہ بھر کر نکلے تو وضو ٹوٹ جائے گا اگر منہ بھر سے کم ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ منہ بھر وہ ہو جو بغیر مشقت نہ رک سکے اگر خالص بلغم نکلے تو وضو۔نہیں ٹوٹے گا خواہ منہ بھر ہی ہو۔ منہ یا دانتوں سے خون تھوک کے ساتھ مل کر آئے تو اگر خون غالب یا برابر ہے تو وضو جاتا رہے گا اور کم ہے تو نہیں ٹوٹا۔ اگر زخم پر خون ظاہر ہوا اور اس کو انگلی یا کپڑے سے پونچھ لیا پھر ظاہر ہوا پھر پونچھ لیا کئی بار ایسا کیا اگر یہ سب دفعہ کا خون مل کر اتنا ہو جاتا ہے کہ بہ جائے تو وضو ٹوٹ گیا۔ورنہ نہیں۔ اگر آنکھ یا کان یا چھاتی یا ناف یا کسی حصہ جسم سے درد کے ساتہ پانی نکلا تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، اگر بغیر درد کے نکلا تو وضو نہیں ٹوٹے گا، اگر آنکھ نہ دکھتی ہو، نہ اس میں کھٹک ہوتی ہو اور محض نزلہ کی وجہ سے یا یونہی پانی بہے یا آنسو نکل آئے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔۔ اگر جما ہوا خون مسور کے دانے کے برابر ناک صاف کرتے وقت نکلے تو وضو باقی رہا وضو توڑنے والی دوسری قسم یعنی جو انسان پر طاری ہوتی ہے اس کی یہ صورتیں ہیں۔ نیند، لیٹ کر سونا خواہ چت ہو یا پٹ یا کروٹ پریا تکیہ وغیرہ کے سہارے سے ہو یا کسی اور شکل پر ہو جس سے سرین زمین سے جدا ہو جائیں یا صرف ایک سرین پر سہارا دے کر سو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ ہارے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سہارا ہٹا لیا جائے تو وہ گر پڑے اور سرین زمین سے جدا ہو جائے اور اگر بغیر سہارا لئے کھڑے کھڑے یا بغیر سہارا لگائے بیٹھ کر سو جائے یا نماز کی کسی ہیئت پر جو مردوں کے لئے مسنون مثلاً سجدہ یا قعدے میں مسنونہ ہیئت پر سو گیا تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اگر دونوں سرین پر بیٹھا ہے ، گھٹنے کھڑے ہیں ، ہاتھ پنڈلیوں پر لپٹے ہوئے ہیں اور۔سر گھٹنوں میں ہے تو اس حالت مین سونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ بیہوشی، خواہ بیماری یا کسی اور وجہ سے ہو مثلاً غشی، جنوں ، مرگی اور نشہ وغیرہ سے بیہوشی ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ تھوڑی دیر ہی ہو اس کی حد یہ ہے کہ اس کے پاؤں میں لغزش آ جائے۔ نماز کے اندر قہقہہ مارنا یعنی اس طرح کھلکھلا کر ہنسنا کہ اس برابر والے سن لیں ، قہقہہ وضو اور نماز دونوں کو توڑتا ہے خواہ عمداً ہو یا سہواً، اگر نماز کے باہر قہقہہ سے ہنسے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ مباشرت فاحشہ یعنی عورت اور مرد کی شرمگاہوں کا اسطرح ملنا کہ ننگے ہوں تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اگر وضو کی نیت نہ کی مثلاً کوئی شخص دریا میں گر گیا یا بارش میں کھڑا رہا اور تمام اعضاء وضو پر سے پانی بہ گیا تو وضو ہو جائے گا یعنی اس سے نماز پڑھ لینا جائز ہے لیکن وضو کی نیت نہ کرنے سے وضو کا ثواب نہیں ملے گا۔ دھونے کی حد یعنی جسے دھونا کہ سکیں یہ ہے کہ پانی عضو پر بہ کر ایک دو قطرے ٹپک جائیں ، یہ دھونے کی ادنیٰ مقدار ہے اس سے کم کو دھونا نہیں کہتے۔ پس اگر ہاتھ بھگو کر منہ پر پھیر لیا یا اسقدر تھوڑا پانی منہ پر ڈالا کہ وہ منہ وغیرہ پر ہی رہ گیا ٹپکا نہیں تو اس کا وضو صحیح نہیں ہو گا۔ جن اعضاء کا وضو میں دھونا فرض ہے ان کا ایک دفعہ دھونا فرض ہے اور اس سے زیادہ یعنی دو دفعہ دھونا سنت ہے تاکہ یہ مل کر تین دفعہ ہو جائے اور تین مرتبہ سے زائد دھونا ناجائز اور مکروہ ہے۔ جن اعضاء کا دھونا فرض ہے ان میں سے ایک بال بربر بھی خشک رہ جائے تو وضو درست نہ ہو گا۔ اگر کسی آدمی کے چھ انگلیاں ہو تو چھٹی انگلی کا دھونا فرض ہے اور اسی طرح جو چیز زیادہ پیدا ہو جائے اور اس مقام کے اندر ہو جس کا دھونا فرض ہے تو اس زائد کا دھونا بھی فرض ہو جاتا ہے۔
Top