حیض و نفاس و استحاضہ کا بیان
عورت کو جو خون فرج ( آگے کے مقام ) سے نکلتا ہے تین قسم کا ہے 1. حیض 2. نفاس 3. استحاضہ حیض کا بیان 1. حیض وہ خون ہے جو رحم سے بغیر ولادت یا بیماری کے ہر مہینہ فرج ( آگے ) کی راہ سے نکلتا ہے اگر خون پاخانہ کے مقام کی طرف سے نکلے تو حیض نہیں اور اس کے بند ہو جانے پر غسل فرض نہیں بلکہ مستحب ہے زمانہ حیض کے علاوہ اور دنوں میں کسی دوائی کے استعمال سے خون آ جائے وہ بھی حیض نہیں ہے 2. حیض کا خون ان چند باتوں پر موقوف ہے وقت اور وہ نو برس کی عمر سے ایاس ( نا امیدی) کی عمر تک ہے ، نو برس سے پہلے جو خون نکلے وہ حیض نہیں ہے ایاس کا وقت پچپن برس کی عمر ہونے پر ہوتا ہے یہی اسح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ، اس کے بعد جو خون آئے گا وہ حیض نہیں بشرطیکہ وہ قوی نہ ہو یعنی زیادہ سرخ یا سیاہ نہ ہو پس اگر ایسا ہے تو حیض ہے اور اگر زرد و سبز یا خاکی رنگ ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے بشرطیکہ اس عمر سے پہلے ان رنگوں میں سے کسی رنگ کا خون نہ آتا ہو ورنہ اگر عادت کے مطابق ہو گا تو اب بھی حیض شمار ہو گا، 3. خون کا فرجِ خارج تک نکلنا اگرچہ گدی کے گر جانے سے ہو پس جب تک کچھ گدی یا روئی خون اور فرج خارج کے درمیان حائل ہے تو حیض نہ ہو گا، حیض کے خون میں سیلان ( بہنا) شرط نہیں ، مطلب یہ ہے کہ جب تک خون فرج کے سوراخ سے باہر کی کھال تک نہ آئے اس وقت تک حیض شروع ہونے کا حکم نہیں لگے گا اور سوراخ سے باہر کی کھال میں نکل آئے تب سے حیض شروع ہے گا خواہ اس کھال سے باہر نکلے یا نہ نکلے کیونکہ بہنا شرط نہیں ہے ، اگر کوئی عورت سوراخ کے اندر روئی وغیرہ رکھ لے جس سے خون باہر نہ نکلنے پائے تو جب تک سوراخ کے اندر ہی اندر خون رہے اور باہر والی روئی یا گدی وغیرہ پر خون کا دھبہ نہ آئے تب تک حیض شروع ہونے کا حکم نہ لگے گا، اور جب خون کا دھبہ باہر والی کھال میں آ جائے یا روئی وغیرہ کھینچ کر باہر نکال لیں تب سے حیض کا حساب ہو گا اور جس وقت سے خون کا دھبہ باہر کی کھال میں یا روئی وغیرہ کے باہر والے حصہ پر دیکھا ہے اسی وقت سے حیض شروع ہونے کا حکم ہو گا، 4. حیض کا خون ان چھ رنگوں میں سے کسی ایک رنگ کا ہو1. سیاہ 2. سرخ3. زرد 4. تیرہ ( سرخی مائل سیاہ یعنی گدیلا)5. سبز 6. خاکستری ( مٹیلا) اور جب تک بالکل سفید نہ ہو جائے وہ حیض ہے تری کی حالت کا اعتبار ہے پس جب تک کپڑا تر ہے اگر اس وقت تک خالص سفیدی ہو اور جب خشک ہو جائے تب زرد ہو جائے تو اس کا حکم سفیدی کا ہے اور تر حالت میں سرخ یا زرد ہے اور خشک ہونے کے بعد سفید ہو گیا تو سرخ یا زرد سمجھا جائے گا اور وہ حیض کے حکم میں ہو گا 5. مدت حیض، حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں ، تین دن اور رات سے ذرا بھی کم ہو تو حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہے کہ کسی بیماری کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہے اور اکثر مدت حیض دس دن اور دس راتیں ہیں پس دس دن سے زائد جو خون آیا وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ ہو گا، 6. رحم حمل سے خالی ہو یعنی وہ عورت حاملہ نہ ہو 7. طہر کی کامل مدت اس سے پہلے ہو چکی ہو، دو حیض کے درمیان پاک رہنے کی مدت کم سے کم پندرا دن ہے اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے ، پس دو حیض کے درمیان میں جو طہر یا پاکی کے دن آئیں اگر وہ پندرہ روز سے کم ہیں تو ان دونوں حیض کو جدا نہیں کرے گا پس اگر وہ وقفہ دس دن سے زیادہ نہ ہو تو وہ طہر اور خون سب حیض ہوں گے اور اگر دس دن سے زیادہ ہو تو اگر اس کو پہلی ہی بار حیض آیا ہو تو دس دن حیض کے سمجھے جائیں گے اوراگر اس کی عادت مقرر ہو تو مقررہ عادت کے مطابق حیض سمجھا جائے گا اور طہر کی کم سے کم مدت یعنی پندرہ دن یا اس سے زیادہ وقفہ ہو تو طہر۔سمجھا جائے گا ورنہ باقی دن استحاضہ ہو گا نفاس کا بیان 1. نفاس وہ خون ہے جو بچہ پیدا ہونے کے بعد رحم سے آگے کی راہ سے نکلے جب نصف سے زیادہ بچہ باہر نکل آئے تو اب جو خون نکلے گا وہ نفاس ہو گا، اس سے پہلے نفاس نہیں ہو گا اگر توام ( جوڑا) بچے پیدا ہوں تو نفاس پہلے بچے کے پیدا ہونے کے وقت سے ہو گا اور اس کی پیدائش کے بعد سے چالیس دن تک نفاس ہو گا اس کے بعد استحاضہ ہے مگر غسل کا حکم دیا جائے گا یعنی نہا کر نماز پڑھے گی شرط یہ ہے کہ دونوں توام بچوں کی ولادت میں چھ مہینہ سے کم کا فاصلہ ہو اگر دونوں کے درمیان چھ مہینہ یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تو دو حمل اور دو نفاس ہوں گے 2. نفاس کی کم سے کم مدت کچھ مقرر نہیں ، نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد خون آ جائے خواہ ایک ہی ساعت ہو وہ نفاس ہے اگر بچہ نصف سے کم نکلا اور اس وقت خون آیا تو وہ نفاس نہیں بلکہ استحاضہ ہے اور نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے ، اگر خون چالیس دن سے زیادہ آتا رہا تو اس عورت کے لئے جس کو پہلی مرتبہ نفاس آیا چالیس دن نفاس ہو گا اور باقی استحاضہ اور جس عورت کی نفاس کی عادت مقرر ہے اس کے لئے مقررہ عادت کے دنوں تک نفاس ہے اور باقی استحاضہ، نفاس کی عادت کے ایک بار خلاف ہونے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے استحاضہ کا بیان جو خون حیض اور نفاس کی صفت سے باہر ہو وہ استحاضہ ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں بدبو نہیں ہوتی اور حیض اور نفاس کے خون میں بدبو ہوتی ہے اور استحاضہ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں 1. ایام حیض میں جو خون تین دن سے کم ہو، 2. ایام حیض میں جو خون دس دن سے زیادہ ہو، 3. جو خون نفاس چالیس دن سے زیادہ ہو، 4. جو حیض و نفاس عادت مقررہ سے زیادہ ہو اور اپنی اکثر مدت یعنی دس دن اور چالیس دن سے زیادہ ہو جائے ، 5. حاملہ کا خون دوران حمل میں چاہے جتنے دن آئے ، 6. نو برس سے کم عمر کی لڑکی کو جو خون آئے ، 7. پچپن برس سے زیادہ ہو جانے پر جو خون آئے بشرطیکہ وہ قوی نہ ہو یعنی زیادہ سرخ و سیاہ نہ ہو، 8. پندرہ روز سے کم وقفہ ہونا، ۹. پاخانہ کے مقام سے جو خون آئے ، 10. ولادت کے وقت آدھا بچہ یا اس سے کم آنے پر جو خون نکلے لیکن نصف سے زیادہ بچہ نکلنے کے بعد جو خون آئے گا وہ نفاس ہو گا، 11. بالغ ہونے پر پہلی دفعہ حیض آیا اور وہ بند نہیں ہوا تو ہر مہینہ میں پہلے دس روز حیض کے شمار ہوں گے اور بیس روز استحاضہ شمار ہوں گے اسی طرح جس کو پہلی دفعہ نفاس آیا اور خون بند نہیں ہوا تو پہلے چالیس روز۔نفاس شمار ہو گا اور باقی استحاضہ متفرق مسائل 1. اگر پورے دس دن رات حیض آیا اور ایسے وقت خون بند ہوا کہ صرف ایک دفعہ اللّٰہ اکبر کہ سکتی ہے اور نہانے کی گنجائش نہیں تب بھی نماز واجب ہو جاتی ہے اس کی قضا پڑھنی چاہیے اور رمضان شریف میں اگر رات کو پاک ہوئی اور اتنی ذرا سی رات باقی ہے جس میں ایک دفعہ اللّٰہ اکبر بھی نہیں کہ سکتی تب بھی اس صبح کا روزہ واجب ہو، 2. اور اگر حیض کا خون دس دن سے کم میں بند ہو جائے تو اگر نماز کا اتنا آخری وقت پا لے کہ جس میں غسل کر کے کپڑے پہن کر تکبیر تحریمہ کہ سکے تو اس پر اس وقت کی نماز واجب ہو جاتی ہے پس اس نماز کی قضا پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو وہ نماز اس پر واجب نہیں ہوتی، یعنی وہ نماز معاف ہے اور روزہ کے لئے حکم یہ ہے کہ اگر رات کو پاک ہوئی اور پھرتی سے نہا سکنے کا وقت تو ہو لیکن ایک دفعہ بھی اللّٰہ اکبر نہیں کہ سکتی تب بھی اس دن کا روزہ واجب ہے پس اسے چاہیے کہ روزہ کی نیت کر لے اور صبح کو نہا لے اور اگر پھرتی سے غسل کرنے کا وقت بھی نہ ہو تو اس دن کا روزہ فرض نہیں ہو گا لیکن اس کے لئے دن میں کھانا پینا درست نہیں روزہ دار کی طرح رہے اور اس روزہ کی قضا دے ، 3. اسی طرح رمضان شریف میں دن کو پاک ہوئی تو اب پاک ہونے کے بعد کھانا درست نہیں شام تک روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے لیکن یہ دن روزہ میں شمار نہیں ہو گا بلکہ اس کی قضا رکھنی پڑے گی، 4. کسی لڑکی نے پہلی دفعہ خون دیکھا اگر اس کو دس دن یا اس سے کم خون آئے تو سب حیض ہے اور اگر دس دن سے زیادہ آئے تو پورے دس دن حیض ہے اور اس سے جتنا زیادہ ہو وہ سب استحاضہ ہے ، 5. کسی عورت کو مثلاً تین دن حیض آنے کی عادت ہے لیکن کسی مہینہ میں ایسا ہوا کہ تین دن پورے ہو چکے اور ابھی خون بند نہیں ہوا تو ابھی غسل نہ کرے اور نہ نماز پڑھے اگر دس دن رات پورے ہونے پر یا اس سے پہلے مثلاً نویں دن خون بند ہو جائے تو ان سب دنوں کی نمازیں معاف ہیں کچھ قضا نہیں پڑھنی پڑے گی اور یوں کہیں گے کہ عادت بدل گئی اس لئے یہ سب دن حیض کے ہوں گے اور اگر گیارہویں دن یعنی دس دن رات سے ایک لحظہ بھی زیادہ خون آیا تو اب معلوم ہوا کہ حیض کے فقط تین ہی دن یعنی مقررہ عادت کے مطابق اور باقی سب استحاضہ ہے پس گیارہویں دن نہائے اور عادت کے تین دن چھوڑ کر باقی دنوں کی جتنی نمازیں ہوئی ان سب کو قضا پڑھے ، 6. حیض یا نفاس میں ایک مرتبہ کے بدلنے سے عادت بدل جاتی ہے اسی پر فتویٰ ہے مثلاً کسی عورت کے ہمیشہ چار دن حیض آتا تھا پھر ایک مہینہ میں پانچ دن خون آیا اور پھر دوسرے مہینہ میں پندرہ دن خون آیا تو ان پندرہ دن میں سے پانچ دن حیض کے اور دس دن استحاضہ کے ہیں ، اب عادت یعنی چار دن کا اعتبار نہیں کریں گے اور یہ سمجھیں گے کہ عادت بدل گئی اور پانچ دن کی عادت ہو گئی ہے نفاس کو بھی اسی پر قیاس کر لیجیے ، 7. جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی چار دن خ ون آتا ہے کبھی سات دن اسی طرح بدلتا رہتا ہے کبھی دس دن بھی آ جاتا ہے تو یہ سب حیض ہے ایسی عورت کو اگر کبھی دس دن سے زیادہ خون آ جائے تو اس سے پہلی مہینہ میں جتنے دن حیض آیا تھا اتنے دن حیض کے ہیں اور باقی سب استحاضہ ہے 8. جس عورت کی عادت مقرر نہ ہو بلکہ کبھی مثلاً چھ دن حیض کے ہیں اور کبھی سات دن اب جو خون آیا تو کبھی بند نہیں ہوتا اس کے لئے نماز روزہ کے حق میں کم مدت یعنی چھ دن حیض کے قرار دئے جائیں گے اور وہ ساتویں دن نہا کر نماز پڑھے اور روزہ رکھے مگر سات دن پورے کرنے کے بعد پھر نہانے کا حکم ہے اور ساتویں دن جو فرض روزہ رکھا ہے اس کی قضا کرے
Top