حدث اصغر و اکبر کے احکام
حدث اصغر یعنی بے وضو ہونے اور حدث اکبر یعنی غسل واجب ہونے یا حیض یا نفاس کی حالت طاری ہونے اور استحاضہ کے احکام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ اول: وہ احکام جو صرف حدث اصغر کے ساتھ مخصوص ہیں 1. قرآن مجید کا پڑھنا اور پڑھانا جائز اور درست ہے خواہ چھوئے بغیر دیکھ کر یا زبانی حفظ سے ) پڑھے پڑھائے ، 2. نابالغ بچوں کو قرآن مجید دینا اور چھونے دینا مکروہ نہیں ہے ، دوم: وہ احکام حدث اصغر و اکبر میں مشترک ہیں یعنی وہ احکام جو بے وضو ہونے غسل واجب ہونے اور حیض و نفاس کی حالت میں مشترک ہیں وہ یہ ہیں 1. ہر قسم کی نماز پڑھنا حرام و ممنون ہے خواہ فرض و واجب ہو یا سنت و نفل اور خواہ رکوع و سجود والی نماز ہو یا بغیر رکوع سجدے کی یعنی نماز جنازہ پس جو شخص بے وضو ہو یا اس پر غسل کرنا فرض ہو اس کے وضو یا غسل کرنے کے بعد نماز ادا کرنی چاہیے اور حیض و نفاس والی عورت سے نماز ساکت ہو جاتی ہے یعنی بالکل معاف ہو جاتی ہے اور پاک ہونے کے بعد بھی اس کی قضا واجب نہیں ہوتی، اگر فرض یا واجب نماز پڑھنے کی حالت میں حیض آ گیا تو وہ نماز معاف ہو گی اب اس نماز کو پڑھنا ترک کر دے اور پاک ہونے کے بعد اس کی قضا بھی نہ پڑھے اور اگر سنت یا نفل پڑھنے کی حالت میں حیض آگیا تو اب اس کو بھی ادا نہ کرے لیکن پاک ہونے کے بعد اس کی قضا پڑھنی ہو گی اور اگر نماز کے آخر وقت میں حیض آیا اور ابھی نماز نہیں پڑھی تب بھی وہ نماز معاف ہو گی حیض والی عورت کے لئے مستحب یہ ہے کہ ایام حیض میں ہر نماز کے وقت وضو کرے اور اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی پاک جگہ میں بیٹھے اور اندازاً نماز ادا کرنے کی مدت تک ذکر اللّٰہ اور تسبیح و تہلیل و تکبیر و درود شریف و استغفار و دعا وغیرہ میں مشغول رہے تاکہ نماز کی عادت نہ چھوٹنے پائے اور پاک ہونے کے بعد نماز سے جی نہ گھبرائے اور سستی پیدا نہ ہو 2. قرآن مجید کا چھونا جائز نہیں یعنی حرام ہے خواہ اس جگہ کو چھوئے جس میں آیت لکھی ہوئی ہے یا اس جگہ کو جو سادہ ہے لیکن اگر قرآن مجید ایسے غلاف میں ہے جو اس سے جدا ہو یا رومال میں لپٹا ہوا ہو یا ایسی جلد ہو جو اس کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو یا اس پر کپڑے کی چولی اس طرح چڑھی ہوئی ہو کہ جلد کے ساتھ سلی ہوئی نہ ہو بلکہ الگ ہو کہ اتارے سے اتر سکے تو چھونا اور اٹھانا جائز ہے اور جو جلد قرآن شریف کے ساتھ سلی ہوئی ہو یا چولی جلد کے ساتھ سلی ہوئی ہو تو اس کا چھونا جائز نہیں پہنے ہوئے کپڑے مثلاً کرتے کی آستین یا دامن یا دوپٹے کی آنچل وغیرہ سے چھونا بھی جائز نہیں اور اگر کپڑا بدن پر پہنا ہوا نہ ہو بلکہ الگ ہو جیسے رومال وغیرہ تو اس سے چھونا یا پکڑ کر اٹھانا و کھولنا جائز ہے اگر پورا قرآن مجید نہ ہو بلکہ کسی کاغذ یا کپڑے یا جھلی یا روپیہ پیسہ یا تشتری یا تعویذ یا کسی اور چیز پر قرآن شریف کی کوئی آیت یا آیتیں لکھی ہوئی ہوں اس کو اس لکھی ہوئی جگہ سے چھونا اٹھانا جائز و درست نہیں ہو لیکن جو حصہ سادہ ہے اس کو چھونا اور پکڑنا جائز ہے جب کہ آیت کو ہاتھ نہ لگے اگر ایسا روپیہ پیسہ وغیرہ تھیلی میں ہو یا کسی برتن وغیرہ میں رکھا ہو یا تعویذ پر الگ سادہ کاغذ لپٹا ہوا ہو تو اس تھیلی برتن اور تعویذ کا چھونا اور اٹھانا جائز ہے قرآن مجید کی طرف سے دیکھنا مکروہ نہیں ہے کیونکہ یہ مس کرنا نہیں ہے صرف نظر کا قرآن مجید کے سامنے ہونا پایا جاتا ہے ، 3. قرآن مجید کے علاوہ اور آسمانی کتا بوں مثلاً توریت و انجیل و زبور وغیرہ کے صرف اس مقام کو چھونا مکروہ و ممنوع ہے جہاں لکھا ہوا ہے سادہ مقام کا چھونا مکروہ نہیں اور یہی حکم قرآن مجید کی ان آیتوں کا ہے جن کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے بعض کے نزدیک توریت و انجیل وغیرہ دیگر کتب سماویہ کا بھی وہی حکم ہے جو قرآن مجید کے مس کرنے کا بیان ہوا کیونکہ ان سب کی تعظیم واجب ہے لیکن یہ حکم ان کتب سماویہ کے لئے مخصوص ہونا چاہیے جن میں کوئی تحریف اور تغیر و تبدل نہیں ہوا ہے کتب تفسیر مع اصل قرآن و فقہ و حدیث کے چھونے کے متعلق تین قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان میں آیت قرآنی کی جگہ کا مس کرنا جائز نہیں ہے اس کے علاوہ دوسری جگہ کا مس کرنا جائز ہے اور یہ قواعد شرعیہ کے زیادہ موافق ہے دوسرا قول یہ ہے کہ ان کے مس کرنے میں متعلقاً کوئی کراہت نہیں ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ کتب تفسیر کا مس کرنا مکروہِ تحریمی ہے اور کتب فقہ و کتب حدیث وغیرہ کا مس کرنا مکروہ نہیں ہے یہ تیسرا قول اظہر و احوط ہے کیونکہ کتب تفسیر میں قرآن مجید دوسری کتابوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں قرآن مجید کا ذکر مستقلاً ہوتا ہے نہ کہ طبعاً اس لئے یہ مشابہ بالمصحف ہے ، 4. اگر قرآن مجید کا محض ترجمہ اردو فارسی وغیرہ میں لکھا ہوا ہو اصل عربی قرآن ساتھ میں لکھا ہوا نہ ہو تو اس کا چھونا امام ابو حنیفہ رحمت اللّٰہ کے نزدیک مکروہ ہے اور امام محمد و امام ابو یوسف رحمہ اللّٰہ کا صحیح قول یہی ہے ، 5. قرآن مجید کا لکھنا مکروہ نہیں بشرطیکہ کہ لکھے ہوئے کو ہاتھ نہ لگے اگرچہ خالی مقام کو چھوئے یہ امام ابو یوسف کے نزدیک ہے اور یہ قیاس کے زیادہ نزدیک ہے اور امام محمد کے نزدیک خالی مقام کو چھونا بھی جائز نہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید کو مس کرنے والے کے حکم میں ہے اور یہی احوط ہے طحطاوی (رح) نے ان میں اس طرح تطبیق (مقابل کرنا) دی ہے کہ امام ابو یوسف کے قول میں کراہتِ تحریمی کی نفی ہے اور امام محمد کے قول میں کراہتِ تنزیہی کا اثبات ہے ایک آیت سے کم کا لکھنا مکروہ نہیں جب کہ کسی کتاب وغیرہ میں لکھے اور قرآن شریف میں ایک آیت سے کم لکھنا بھی جائز نہیں وہ احکام جو حدث اکبر کے ساتھ مخصوص ہیں سوم: وہ احکام جو حدث اکبر کے ساتھ مخصوص ہیں 1. مسجد میں داخل ہونا حرام و ممنون ہے خواہ گزرنے کے لئے ہو لیکن اگر کوئی سخت ضرورت ہو تو جائز ہے مثلاً مسجد کے اندر پانی ہو اور باہر کہیں پانی نہ ملے یا درندے یا چور یا سردی کا خوف ہو یا کسی کے گھر کا دروازہ مسجد میں ہو اور اس کے نکلنے کا اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو اور وہ اس کو تبدیل نہ کر سکتا ہو اور نہ وہاں کے سوا کسی دوسری جگہ رہ سکتا ہو تو اس کو مسجد میں جانا جائز ہے لیکن اس کو دخول مسجد کے لئے تیمم کرنا واجب ہے بخلاف اس شخص کے جس کو مسجد میں احتلام ہو جائے اور وہ اس وقت مسجد سے باہر نکل جائے تو اس کے تیمم کر کے نکلنا مستحب ہے واجب نہیں لیکن اگر کسی خوف وغیرہ کی وجہ سے اس کو مسجد میں ٹھہرنا پڑے تو اب اس کو تیمم کرنا واجب ہے ، 2. خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کے اندر داخل ہونا اور خانہ کعبہ کا طواف کرنا حرام ہے اگرچہ طواف مسجد کے باہر سے کرے ، 3. عیدگاہ و جنازہ گاہ مدرسہ و خانقاہ وغیرہ میں جانا جائز ہے ، 4. قرآن مجید پڑھنا حرام ہے تلاوت کی نیت سے ذرا سا بھی نہ پڑھیں لیکن جن آیتوں میں اللّٰہ تعالی کی ثنا یا دعا کا مضمون ہو اگر ان کو قرأت کے ارادے سے نہ پڑھے بلکہ ثنا یا کام شروع کرنے یا دعا یا شکر کے ارادے سے پڑھے تو جائز ہے مثلاً شکر کے ارادے سے الحمد اللّٰہ کہے یا کھانا کھاتے وقت بسم اللّٰہ پڑھے تو مظائقہ نہیں ، اگر کوئی شخص پوری سورہ الحمد دعا کی نیت سے پڑھے یا ربنا اتنا فی الدنیا حسنت یا ربنا لا تو اخذنا ان نسینا الخ یا کوئی اور ایسی ہی دعا والی آیت دعا کی نیت سے پڑھے تو جائز ہے اس میں کچھ گناہ نہیں دعاء قنوت کا پڑھنا بھی درست ہے نیز کلمہ شریف، درود شریف، اللّٰہ تعالی کا نام لینا، استغفار پڑھانا یا کوئی اور وظیفہ مثلاً لا حول ولا قوت الا باللّٰہ پڑھنا منع نہیں ہے بلکہ ان دعاؤں وغیرہ کا پڑھانا چھونا اور اٹھنا جائز و درست ہے 5. اگر معلمہ عورت ( استانی) کو حیض یا نفاس آ جائے تو اس کو چاہیے کہ بچوں کو رواں پڑھاتے وقت پوری آیت نہ پڑھے بلکہ ایک ایک کلمہ سکھائے اور ان کے درمیان میں توقف کرے اور سانس توڑ دے اور رک رک کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے رواں پڑھائے اس کو بھی مرکب الفاظ کا ایک دم پڑھنا جائز نہیں ہے اور ہجے کرانا اس کے لئے مکروہ نہیں بلکہ درست ہے بعض فقہا نے یہ حکم حیض والی عورت کے لئے مخصوص کیا ہے اور جنبی کے لئے ان کے جائز نہیں رکھا کیونکہ عورت ہر مہینہ میں چند روز اس کے لئے مضطر ہے جس کی وجہ سے بخیال حرج تعلیم اس کو اجازت دی گئی ہے ، بخلاف جنبی کے لیکن مختار یہ ہے کہ جنبی کا بھی یہی حکم ہے ، وہ احکام جو صرف حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ مخصوص ہیں چہارم: وہ احکام جو صرف حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ مخصوص ہیں 1. اس حالت میں روزہ رکھنا حرام ہے لیکن روزہ بالکل معاف نہیں ہوتا بلکہ پاک ہونے کے بعد اس روزوں کی قضا لازم ہے یعنی فرض روزہ کی قضا فرض اور واجب روزہ کی قضا واجب ہے۔ اگر فرض روزہ کی حالت میں حیض و نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے خواہ وہ روزہ فرض یا واجب ہو یا سنت یا نفل کیونکہ شروع ہونے کو بعد سنت و نفل روزہ بھی واجب ہو جاتا ہے 2. حیض و نفاس والی عورت سے جماع حرام ہے اور اس کے جائز و حلال جاننا کفر ہے اور جو چیزیں جماع کے ہم معنی ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے ، پس ایسی عورت کے ناف اور زانو کے درمیان کے جسم کو دیکھنا اس سے اپنے جسم کو ملانا جبکہ کوئی کپڑا درمیان میں حائل نہ ہو حرام ہے ، ناف اور زانو کے درمیانی حصہ کے علاوہ باقی بدن یعنی ناف اور ناف کے اوپر کا حصے اور زانو سے نیچے کے حصہ کا بدن کو اپنے جسم کے ساتھ ملانا( یعنی اس حصہ سے مباشرت و استمتاع) جائز ہے ، اگرچہ کپڑا درمیان میں حائل نہ ہو اور ناف و زانو کے درمیانی حصہ بدن سے اپنا بدن ملانا یعنی مباشرت و استمتاع اس وقت جائز ہے جبکہ کپڑا درمیان میں حائل ہو، پس اگر ناف و زانو کے درمیان کپڑا ہونے کی صورت میں حیض و نفاس والی عورت کے ساتھ لیٹنا وغیرہ جائز ہے بلکہ حیض کی وجہ سے جائز نہ جانتے ہوئے عورت سے علیحدہ ہو کر سونا اور اس کو اختلاط سے بچنا مکروہ ہے ، جبکہ غلبہ شہوت نہ ہو 3. حیض و نفاس والی عورت سے کھانا پکوانا اور اس کی مستعلمہ چیزوں کا استمعال جائز ہے ان کو کھانے پینے کے لئے ہاتھ دھو لینا اور کلی کر لینا مستحب و اولیٰ ہے ، اس کا ترک مکروہ تنزیہی ہے ، اور پورا وضو کر لینا زیادہ بہتر ہے ، 4. حیض و نفاس کا خون بند ہونے کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے ، 5. اگر کسی عورت کو نہانے کی ضرورت تھی اور ابھی وہ نہانے نہ پائی تھی کہ حیض شروع ہو گیا تو اب اس پر نہانا واجب نہیں ہے بلکہ جب حیض۔سے پاک ہو تب نہائے اور ایک ہی غسل ہر دو سبب کی طرف سے ہو جائے گا
Top