اذان و اقامت کے احکام
1.پانچوں وقت کی فرض عین نمازوں اور جمعہ کی نماز جماعت سے ادا کرنے کے لئے اذان دینا مردوں پر سنت ہے ، اور یہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی ہر شہر و بستی میں ایک شخص کی اذان کفایت کرتی ہے ، اگر کسی ایک شخص نے بھی نہ کہی تو وہاں کے سب لوگ گناہگار ہوں گے اذان شعائرِ اسلام میں سے ہے اور اس کا ترک دین میں استخفاف ہے اگر اہلِ شہر اذان کے ترک پر اتفاق کر لیں تو امام محمد کے نزدیک ان کا قتال حلال ہے اور امام ابو یوسف کے نزدیک وہ لوگ مارنے اور قید کرنے کے لائق ہیں اقامت بھی پانچوں فرضِ عین نمازوں اور جمعہ کے لئے سنت ہونے میں اذان کی مانند ہے بلکہ اذان کی بہ نسبت زیادہ مؤکد ہے ، باقی کسی نماز کے لئے خواہ وہ نماز فرض کفایہ ہو یا سنت نفل وغیرہ ہو اذان و اقامت مسنون و مشروع نہیں ہے 2.عورتوں پر خواہ وہ تنہا نماز پڑھیں یا جماعت کے ساتھ پڑھیں اذان و اقامت مسنون نہیں ہے اگر کہیں گی تو گناہ ہو گا مگر نماز جائز ہو جائے گی، عورتوں کی جماعت خواہ امام بھی عورت ہی ہو مکروہ ہے 3.لڑکوں اور غلاموں کی جماعت میں اذان و اقامت مشروع نہیں ہے 4.مسجد کے اندر اذان و اقامت کے بغیر فرض نماز جماعت سے پڑھنا سخت مکروہ ہے 5.مقیم کے لئے جبکہ وہ گھر میں تنہا یا جماعت سے نماز پڑھے اذان و اقامت مستحب ہے سنت مؤکدہ نہیں بشرطیکہ محلہ یا گاؤں کی مسجد میں اذان و اقامت ہو چکی ہو ورنہ اذان و اقامت دونوں کا چھوڑنا مکروہ ہے صرف اذان چھوڑ دینا مکروہ نہیں ہے ، صرف اقامت چھوڑ دینا مکروہ ہے 6.مسافر آبادی سے باہر خواہ اکیلا نماز پڑھتا ہو اس کو اذان و اقامت دونوں کا چھوڑ دینا مکروہ ہے ، اگر اذان کہی اور اقامت چھوڑ دی تو جائز ہے لیکن مکروہ ہے اور اگر اذان چھوڑ دی اور اقامت کہی تو بلا کراہت جائز ہے ، بہتر یہ ہے کہ دونوں کہے ، اسی طرح اگر مسافر کے تمام ساتھی موجود ہوں تو اذان کا ترک بلا کراہت جائز ہے اور اقامت کا ترک مکروہ ہے اور دونوں کا کہنا مستحب ہے سنتِ مؤکدہ نہیں ، جس گاؤں میں ایسی مسجد ہو جس میں اذان و اقامت ہوتی ہو، اس گاؤں میں گھر کے اندر نماز پڑھنے والے کا حکم وہی ہے جو شہر کے اندر گھر میں نماز پڑھنے والے کا ہوتا ہے اور اگر اس گاؤں میں ایسی مسجد نہیں ہے تو وہ مسافر کے حکم میں ہے 7.اگر شہر یا گاؤں کے باہر باغ یا کھیت وغیرہ ہے اور وہ جگہ قریب ہے تو گاؤں یا شہر کی اذان کافی ہے پھر بھی اذان دے لینا اولٰی ہے اور اگر وہ جگہ دور ہے تو شہر کی اذان اس کے لئے کافی نہیں اور قریب کی حد یہ ہے کہ شہر کی اذان وہاں سنائی دیتی ہو 8.اگر جنگل میں جماعت سے پڑھیں اور اذان چھوڑ دیں تو مکروہ نہیں اور اقامت چھوڑ دیں تو مکروہ ہے ۹. قضا نمازیں جب مسجد کے علاوہ جنگل وغیرہ میں پڑھے تو اُن کے لئے اذان و اقامت کہے خواہ اکیلا پڑھے یا جماعت سے اور اگر مسجد میں یا ایسی جگہ جہاں لوگوں پر اظہار ہوتا ہو قضا نماز جماعت سے پڑھے تو اذان و اقامت نہ کہے اور اگر منفرد ہو تو اس قدر آواز سے کہ لے کہ وہ خود ہی سن سکے اسی طرح اگر جماعت والے بھی اتنی آواز سے کہہ لیں کہ دوسرے لوگوں کو اظہار نہ ہو تو مکروہ نہیں ، جنگل وغیرہ میں جہاں دوسرے لوگ نہ ہوں بلند آواز کے ساتھ اذان کہنا مکروہ نہیں بلکہ سنت ہے 10. اگر بہت سی نمازیں فوت ہو گئیں اور ان کو ایک ہی مجلس میں قضا کرے تو پہلی نماز کے لئے اذان و اقامت کہے اور باقی میں اختیار ہے چاہے دونوں کہے چاہے صرف اقامت کہے ہر نماز کے لئے دونوں کا کہنا بہتر و اولٰی ہے تاکہ قضا ادا کے طریقہ کے موافق ہو جائے 11. صبح کے سوا اور نمازوں کی اذان وقت سے پہلے بلاتفاق جائز نہیں اور صبح کی اذان بھی وقت سے پہلے کہنا امام ابو حنیفہ و امام محمد کے نزدیک جائز نہیں اس کا اعادہ کیا جائے ، اسی پر فتویٰ ہے اقامت بالاجماع وقت سے پہلے جائز نہیں اس لئے اعادہ کیا جائے 12. مستحب ہے کہ اقامت اور نماز کا شروع ہونا متصل ہو اور زیادہ فصل نہ ہو اور کوئی ایسا عمل نہ ہو جو اقامت اور نماز کے درمیان قاطع اور فصل شمار ہو جیسے کھانا پینا کلام کرنا وغیرہ ایسی صورت میں اقامت کا اعادہ مستحب ہے 13.عرفات میں جب ظہر و عصر کو جمع کریں تو ایک اذان اور دو تکبیر اقامت کے ساتھ پڑھیں اور مزدلفہ میں مغرب و عشا کو ایک اذان اور ایک اقامت سے ادا کریں 14.کئی مؤذنوں کا ایک ساتھ اذان کہنا جائز ہے اس کو اذانِ جوق کہتے ہیں بڑی بڑی مساجد میں اس کا رواج ہے حرمین پاک میں بھی اس کا رواج ہے
Top