اذان کا جواب دینے کا بیان
1.جو شخص اذان سنے خواہ وہ عورت ہو یا مرد، پاک ہو یا جنبی اور وہ اذان نماز کی ہو یا کوئی اور اذان مثلاً نومولود بچے کے کان میں اذان دی ہو تو اس سننے والے پر اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور بعض نے واجب بھی کہا ہے مگر معتمد اور ظاہر مذہب یہ ہے کہ نماز کی اذان کا زبان سے جواب دینا مستحب ہی ہے اور عملی جواب واجب ہے پس جو شخص مسجد سے باہر ہے اس کو عملی جواب یعنی مسجد میں آنا واجب ہے اور زبانی جواب مستحب ہے ، پس اگر کسی شخص نے زبان سے اذان کا جواب دیا اور عملی جواب نہ دیا یعنی جماعت میں شامل ہونے کے لئے کوئی عذر نہ ہونے کے باوجود مسجد میں نہ آیا تو وہ شخص جواب دینے والا نہیں کہلائے گا، اور جو شخص مسجد میں موجود ہے اس کو عملی جواب دینا جو واجب تھا حاصل ہے صرف زبان سے جواب دینا مستحب ہے 2.جو شخص اذان کی آواز نہ سنے مثلاً دور ہو یا بہرہ ہو تو اس پر زبان سے جواب دینا نہیں ہے اگرچہ اس کو علم ہو کہ اذان ہو رہی ہے 3.اگر اذان غلط کہی گئی تو اس کا جواب نہ دے بلکہ ایسی اذان کو سنے بھی نہیں 4.اگر ایک ہی مسجد کی کئی اذانیں سنے جیسا کہ بڑی مسجد میں جوق کی اذان کا رواج ہے یا کئی مسجدوں کی اذانیں ایک دوسرے کے بعد ساتھ ساتھ سنے تو اس پر پہلی ہی اذان کا جواب ہے خواہ وہ اپنی مسجد کی ہو یا کسی دوسری مسجد کی اور بہتر یہ ہے کہ سب کا جواب دے 5.چلنے کی حالت میں اذان سنے تو افضل یہ ہے کہ اذان کے جواب کے لئے کھڑا ہو جائے 6.اذان و اقامت سننے کی حالت میں کوئی بات نہ کرے اور سوائے ان کا جواب دینے کے کوئی کام نہ کرے یہاں تک کہ نہ سلام کرے اور نہ سلام کا جواب دے ( یعنی مناسب نہیں ہے اور خلاف اولٰی ہے ) 7.اذان و اقامت کے وقت قرآن مجید بھی نہ پڑھے اگر پہلے سے پڑھتا ہو تو چھوڑ کر اذان یا اقامت کے سننے اور جواب دینے میں مشغول ہونا افضل ہے اور اگر پڑھتا رہے تب بھی جائز ہے اگر اقامت کا جواب نہ دے اور اس وقت دعا میں مشغول ہو تو مضائقہ نہیں 8.اگر کوئی اذان کا جواب دینا بھول جائے یا قصداً نہ دے اور اذان ختم ہونے کے بعد خیال آئے یا اب جواب دینے کا ارادہ کرے تو اگر زیادہ دیر نہ گزری ہو جواب دیدے ورنہ نہیں ۹.اگر اذان ہونے کے بعد دوبارہ کوئی اذان دے تو احترام پہلی اذان کے لئے ہے 10.جمعہ کی پہلی اذان سن کر خرید و فروخت وغیرہ تمام کاموں کو چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لئے اُس مسجد میں جانا جس میں نماز جمعہ ہوتی ہو واجب ہے خواہ وہ پہلی اذان کسی مسجد کی ہو البتہ جن پر جمعہ واجب نہیں وہ مستثنیٰ ہیں اور ان کو خرید و فروخت وغیرہ کوئی کام کرنا جائز ہے جمعہ کی دوسری اذان جو خطیب کے سامنے ہوتی ہے زبان سے اس کا جواب دینا مکروہ ہے البتہ دل میں اس کا جواب دے لے زبان یا حلق کو حرکت نہ دے اذان کا جواب مستحب ہے ، اس کا جواب اس طرح دے کہ جو لفظ موذن سے سنے وہی کہے مگر حَیَّ عَلَی الصَّلٰوةِ اور حَیَّ عَلَی الفَلَاح کے جواب میں لَا حَولَ وَلَا قُوةَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہے اور لاحول الخ بھی کہے تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے ، فجر کی اذان میں الصَّلٰوةُ خَیرُ مِّنَ النَّومِ کے جواب میں صَدَقتَ وَ بَرَرتَ کہے ، اقامت کا جواب بھی بالاجماع مستحب ہے اور وہ بھی اذان کی طرح ہے اور قد قامت الصلوة کے جواب میں اَقَامَھَااللّٰہ وَاَدَمَھَا کہے ابو داؤد کی روایت میں اس کے بعد یہ الفاظ زیادہ ہیں مَا دامَتِ السَّمٰواتُ الاَرضُ وَ اجعَلنِی مِن صَالِحِی اَھلِھَا ط اذان کے ختم پر مستحب ہے کہ مؤذن اور اذان کا جواب دینے والا دونوں درود شریف پڑھ کر یہ دعا پڑھیں اَللّٰھَّم رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعوةِ التَّامَّتِ وَالصَّلٰوةِ القَآئِمَتِ اٰتِ سَیَّدَ نَا مُحَمَّدَ نِ الوَسِیلَتَوَالفَضِیلَتَ وَابعَثہُ مُقَامًا مَّحمُودَ نِ الَّذِی وَعَدتَّہُ اِنَّکَ لَا تُخلِفُ المِیعَادَ ط اذان کے بعد کی دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا کسی حدیث سے ثابت نہیں اس لئے نہ اٹھانا افضل ہے ، البتہ اٹھانا بھی بلا کراہت جائز ہے کیونکہ مطلقاً دعا میں ہاتھ اٹھانا قولی و فعلی بہت سی مشہور حدیثوں سے ثابت ہے وہ صورتیں جن میں اذان کا جواب نہ دے آٹھ صورتوں میں اذان کا جواب نہ دے 1.نماز کی حالت میں اگرچہ وہ نمازِ جنازہ ہو 2.خطبہ سننے کی حالت میں خواہ وہ خطبہ جمعہ کا ہو یا کسی اور چیز کا 3.جماع کی حالت میں 4. پیشاب یا پاخانہ کرنے کی حالت میں البتہ اگر ان چیزوں سے فراغت کے بعد زیادہ دیر نہ گزری ہو تو جواب دینا چاہئے ورنہ نہیں 5،6. حیض و نفاس کی حالت میں 7. علمِ دین پڑھنے یا پڑھانے کی حالت میں 8. کھانا کھانے کی حالت میں
Top