سنن ابو داؤد - ادب کا بیان - حدیث نمبر 4904
حدیث نمبر: 4904
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْعَمْيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَأَبُوهُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي صَلَاةً خَفِيفَةً دَقِيقَةً كَأَنَّهَا صَلَاةُ مُسَافِرٍ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا فَلَمَّا سَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبِي:‏‏‏‏ يَرْحَمُكَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ أَوْ شَيْءٌ تَنَفَّلْتَهُ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهَا الْمَكْتُوبَةُ وَإِنَّهَا لَصَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏مَا أَخْطَأْتُ إِلَّا شَيْئًا سَهَوْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَار وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏ ثُمَّ غَدَا مِنَ الْغَدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا تَرْكَبُ لِتَنْظُرَ وَلِتَعْتَبِرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَرَكِبُوا جَمِيعًا فَإِذَا هُمْ بِدِيَارٍ بَادَ أَهْلُهَا وَانْقَضَوْا وَفَنُوا خَاوِيَةٍ عَلَى عُرُوشِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَعْرِفُ هَذِهِ الدِّيَارَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا أَعْرَفَنِي بِهَا وَبِأَهْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏هَذِهِ دِيَارُ قَوْمٍ أَهْلَكَهُمُ الْبَغْيُ وَالْحَسَدُ إِنَّ الْحَسَدَ يُطْفِئُ نُورَ الْحَسَنَاتِ وَالْبَغْيُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ وَالْعَيْنُ تَزْنِي وَالْكَفُّ وَالْقَدَمُ وَالْجَسَدُ وَاللِّسَانُ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ.
حسد کا بیان
سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس ؓ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کرلیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ فرماتے تھے: اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ٢ ؎ کہ تم پر سختی کی جائے ٣ ؎ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کردی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا: کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا: ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہوچکے تھے، اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا: یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کردیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کردیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٨٩٩) (حسن) (اس میں سعید بن عبدالرحمن لین الحدیث ہیں، شواہد وطرق کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی ٣١٢٤ وتراجع الألباني ١٣ )
وضاحت: ١ ؎: دشوار اور شاق عمل کر کے جیسے صوم دہر، پوری پوری رات شب بیداری اور عورتوں سے مکمل علیحدگی وغیرہ اعمال۔ ٢ ؎: یعنی یہ اعمال تم پر فرض قرار دے دئیے جائیں۔
Narrated Anas ibn Malik: Sahl ibn Abu Umamah said that he and his father (Abu Umamah) visited Anas ibn Malik at Madina during the time (rule) of Umar ibn Abdul Aziz when he (Anas ibn Malik) was the governor of Madina. He was praying a very short prayer as if it were the prayer of a traveller or near it. When he gave a greeting, my father said: May Allah have mercy on you! Tell me about this prayer: Is it obligatory or supererogatory? He said: It is obligatory; it is the prayer performed by the Messenger of Allah ﷺ . I did not make a mistake except in one thing that I forgot. He said: The Messenger of Allah ﷺ used to say: Do not impose austerities on yourselves so that austerities will be imposed on you, for people have imposed austerities on themselves and Allah imposed austerities on them. Their survivors are to be found in cells and monasteries. (Then he quoted:) Monasticism, they invented it; we did not prescribe it for them. Next day he went out in the morning and said: will you not go out for a ride, so that you may see something and take a lesson from it? He said: Yes. Then all of them rode away and reached a land whose inhabitants had perished, passed away and died. The roofs of the town had fallen in. He asked: Do you know this land? I said: Who acquainted me with it and its inhabitants? (Anas said:) This is the land of the people whom oppression and envy destroyed. Envy extinguishes the light of good deeds, and oppression confirms or falsifies it. The eye commits fornication, and the palm of the hand, the foot, body, tongue and private part of the body confirm it or deny it.
Top