سنن ابو داؤد - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 2771
حدیث نمبر: 2771
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْمَرْوَزِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ سورة التوبة آية 44 الْآيَةَ نَسَخَتْهَا الَّتِي فِي النُّورِ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 62.
جہاد سے لوٹ آنے کی اجازت ممانعت کے بعد
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آیت کریمہ لا يستأذنک الذين يؤمنون بالله واليوم الآخر اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے تو کبھی بھی تجھ سے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو لے کر جہاد کرنے سے رکے رہنے کی اجازت طلب نہیں کریں گے۔۔۔ (سورۃ التوبہ: ٤٤) کو سورة النور کی آیت إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله سے غفور رحيم تک باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جس میں لوگوں کے ساتھ جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے، جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں، پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کسی کام کے لیے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جسے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ النور: ٦٢) نے منسوخ کردیا ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ٦٢٥٧) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: باب اور اثر ابن عباس ؓ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کسی صورت میں جہاد سے چھٹی لے کر گھر آجانے کی اجازت نہیں تھی، پھر بعد میں اجازت لے کر آنے کی رخصت مل گئی۔ ابتدائے اسلام میں منافقوں کی عام روش یہ تھی کہ وہ جہاد کے لئے رسول اللہ کے ساتھ نکلتے نہیں تھے، اور اگر نکلتے بھی تو طرح طرح کے بہانے کر آپ سے اجازت لے کر راستہ ہی سے واپس آجاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی: إنما يستأذنک الذين لا يؤمنون بالله واليوم الآخر ( سورة التوبہ: ٤٥ )، جب یہ آیت اتری تو جہاد سے راستہ سے واپس آنے کو ممنوع قرار دے دیا گیا، گو آپ کی اجازت ہی سے کیوں نہ ہو۔ پھر جب اسلام طاقتور ہوگیا گو آپ اور مجاہدین کی کثرت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی آیت: إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله سے غفور رحيم تک نازل فرمائی، تو پہلی آیت منسوخ ہوگئی اور بوقت ضرورت اجازت لے کر جہاد سے واپس آجانے کو جائز قرار دے دیا گیا۔
Ibn Abbas said “The verse “Those who believe in Allaah and the Last Day ask thee for no exemption from fighting with their goods and persons” was abrogated by the verse “Only those are believers who believe in Allaah and His Messenger. . . . For Allaah is Oft-Forgiving, Most Merciful. ”
Top