سنن ابو داؤد - سزاؤں کا بیان - حدیث نمبر 4382
حدیث نمبر: 4382
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا صَفْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَازِيُّأَنَّ قَوْمًا مِنْ الْكَلَاعِيِّينَ سُرِقَ لَهُمْ مَتَاعٌ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّهَمُوا أُنَاسًا مِنَ الْحَاكَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَوْا النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَحَبَسَهُمْ أَيَّامًا ثُمَّ خَلَّى سَبِيلَهُمْ فَأَتَوْا النُّعْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ خَلَّيْتَ سَبِيلَهُمْ بِغَيْرِ ضَرْبٍ وَلَا امْتِحَانٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النُّعْمَانُ:‏‏‏‏ مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ أَنْ أَضْرِبَهُمْ فَإِنْ خَرَجَ مَتَاعُكُمْ فَذَاكَ وَإِلَّا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِكُمْ مِثْلَ مَا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا حُكْمُكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حُكْمُ اللَّهِ وَحُكْمُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَرْهَبَهُمْ بِهَذَا الْقَوْلِ أَيْ لَا يَجِبُ الضَّرْبُ إِلَّا بَعْدَ الِاعْتِرَافِ.
تفتیش کی غرض سے مجرم کو مارنا پیٹنا
ازہر بن عبداللہ حرازی کا بیان ہے کہ کلاع کے کچھ لوگوں کا مال چرایا گیا تو انہوں نے کچھ کپڑا بننے والوں پر الزام لگایا اور انہیں صحابی رسول نعمان بن بشیر ؓ کے پاس لے کر آئے، تو آپ نے انہیں چند دنوں تک قید میں رکھا پھر چھوڑ دیا، پھر وہ سب نعمان ؓ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ نے انہیں بغیر مارے اور بغیر پوچھ تاچھ کئے چھوڑ دیا، نعمان ؓ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں ان کی پٹائی کرتا ہوں، اگر تمہارا سامان ان کے پاس نکلا تو ٹھیک ہے ورنہ اتنا ہی تمہاری پٹائی ہوگی جتنا ان کو مارا تھا، تو انہوں نے پوچھا: یہ آپ کا فیصلہ ہے؟ نعمان ؓ نے کہا: نہیں، بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قول سے نعمان ؓ نے ڈرا دیا، مطلب یہ ہے کہ مارنا پیٹنا اعتراف کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/قطع السارق ٢ (٤٨٧٨)، (تحفة الأشراف: ١١٦١١) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرم پر جب شبہ ہو تو اس کو پکڑنا صحیح ہے، مگر ناحق مار پیٹ سے اس سے اقبال جرم کرانا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر ظلم ہے، جیسا کہ آج کل میں لوگ کرتے ہیں۔
Azhar ibn Abdullah al-Harari said: Some goods of the people of Kila were stolen. They accused some men of the weavers (of theft). They came to an-Numan ibn Bashir, the companion of the Prophet ﷺ . He confined them for some days and then set them free. They came to an-Numan and said: You have set them free without beating and investigation. An-Numan said: What do you want? You want me to beat them. If your goods are found with them, then it is all right; otherwise, I shall take (retaliation) from your back as I have taken from their backs. They asked: Is this your decision? He said: This is the decision of Allah and His Messenger ﷺ . Abu Dawud said: By this statement he frightened them ; that is, beating is not necessary except after acknowledgement.
Top