سنن ابو داؤد - محصول غنیمت اور امارت وخلافت سے متعلق ابتداء - حدیث نمبر 2985
حدیث نمبر: 2985
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يُونُسُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَنَا:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا نَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نُوَافِقَ صَلَاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ قَلِيلًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ:‏‏‏‏ كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لَا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لَا تَعْجَلَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرِنَا ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَنَا:‏‏‏‏ إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَحْمِيَةَ:‏‏‏‏ أَنْكِحْ الْفَضْلَ فَأَنْكَحَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ.
آپ خمس کہاں کہاں تقسیم کرتے اور کن کن قرابت داروں کو تقسیم فرماتے
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبر دی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب ؓ نے ان سے اور فضل بن عباس ؓ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شادی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول! ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئیے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ (یعنی حق محنت) ہوگا وہ ہم پائیں گے۔ عبدالمطلب ؓ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب ؓ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے: قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے ١ ؎۔ اس پر ربیعہ ؓ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ کی دامادی کا شرف حاصل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی ؓ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور کہنے لگے: میں ابوالحسن سردار ہوں (جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آجائیں جس کے لیے تم نے انہیں اللہ کے نبی کریم کے پاس بھیجا ہے۔ عبدالمطلب ؓ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس ؓ دونوں گئے، ہم نبی کریم کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہوگئی ہم نے سب کے ساتھ نماز جماعت سے پڑھی، نماز پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم کے حجرے کے دروازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المؤمنین زینب بنت حجش ؓ کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ رسول اللہ آگئے اور (پیار سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: بولو بولو، جو دل میں لیے ہو ، یہ کہہ کر آپ گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لیے اشارہ کیا (تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کو ہوا) آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیں حکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ ایک گھڑی تک چپ رہے، پھر نگاہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شاید آپ ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پردے کی آڑ سے (ام المؤمنین) زینب ؓ اشارہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو (گھبراؤ نہیں) رسول اللہ تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد کے لیے اور محمد کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ چناچہ نوفل بن حارث ؓ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ نے فرمایا: نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو ، تو نوفل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردیا۔ پھر نبی اکرم نے فرمایا: محمیہ بن جزء کو میرے پاس بلاؤ ، محمیۃ بن جزء ؓ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا (وہ آئے) آپ نے ان سے فرمایا: تم فضل کا (اپنی بیٹی سے) نکاح کر دو ، تو انہوں نے ان کا نکاح کردیا، پھر رسول اللہ نے (ان سے) کہا: جاؤ مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کر دو ۔ (ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حارث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ٥١ (١٠٧٢)، سنن النسائی/الزکاة ٩٥ (٢٦١٠)، (تحفة الأشراف: ٩٧٣٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٦٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: کیونکہ نبی اکرم کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔
Narrated Abdul Muttalib ibn Rabiah ibn al-Harith (RA) : Abdul Muttalib ibn Rabiah ibn al-Harith said that his father, Rabiah ibn al-Harith, and Abbas ibn al-Muttalib said to Abdul Muttalib ibn Rabiah and al-Fadl ibn Abbas (RA) : Go to the Messenger of Allah ﷺ and tell him: Messenger of Allah, we are now of age as you see, and we wish to marry. Messenger of Allah, you are the kindest of the people and the most skilled in matchmaking. Our fathers have nothing with which to pay our dower. So appoint us collector of sadaqah (zakat), Messenger of Allah, and we shall give you what the other collectors give you, and we shall have the benefit accruing from it. Ali came to us while we were in this condition. He said: The Messenger of Allah ﷺ said: No, I swear by Allah, he will not appoint any of you collector of sadaqah (zakat). Rabiah said to him: This is your condition; you have gained your relationship with the Messenger of Allah ﷺ by marriage, but we did not grudge you that. Ali then put his cloak on the earth and lay on it. He then said: I am the father of Hasan, the chief. I swear by Allah, I shall not leave this place until your sons come with a reply (to the question) for which you have sent them to the Prophet ﷺ . Abdul Muttalib said: So I and al-Fadl went towards the door of the apartment of the Prophet ﷺ . We found that the noon prayer in congregation had already started. So we prayed along with the people. I and al-Fadl then hastened towards the door of the apartment of the Prophet ﷺ . He was (staying) with Zaynab, daughter of Jahsh, that day. We stood until the Messenger of Allah ﷺ came. He caught my ear and the ear of al-Fadl. He then said: Reveal what you conceal in your hearts. He then entered and permitted me and al-Fadl (to enter). So we entered and for a little while we asked each other to talk. I then talked to him, or al-Fadl talked to him (the narrator, Abdullah was not sure). He said: He spoke to him concerning the matter about which our fathers ordered us to ask him. The Messenger of Allah ﷺ remained silent for a moment and raised his eyes towards the ceiling of the room. He took so long that we thought he would not give any reply to us. Meanwhile we saw that Zaynab was signalling to us with her hand from behind the veil, asking us not to be in a hurry, and that the Messenger of Allah ﷺ was (thinking) about our matter. The Messenger of Allah ﷺ then lowered his head and said to us: This sadaqah (zakat) is a dirt of the people. It is legal neither for Muhammad nor for the family of Muhammad. Call Nawfal ibn al-Harith to me. So Nawfal ibn al-Harith was called to him. He said: Nawfal, marry Abdul Muttalib (to your daughter). So Nawfal married me (to his daughter). The Prophet ﷺ then said: Call Mahmiyyah ibn Jazi to me. He was a man of Banu Zubayd, whom the Messenger of Allah ﷺ had appointed collector of the fifths. The Messenger of Allah ﷺ said to Mahmiyyah: Marry al-Fadl (to your daughter). So he married him to her. The Messenger of Allah ﷺ said: Stand up and pay the dower from the fifth so-and-so on their behalf. Abdullah ibn al-Harith did not name it (i. e. the amount of the dower).
Top