سنن ابو داؤد - نماز کا بیان - حدیث نمبر 822
نماز میں قرأت فرض ہونے کا بیان
اس پر میں نے کہا: ابوہریرہ! کبھی کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا کروں! ) تو انہوں نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ١ ؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردی ہے، اس کا نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ بھی ہے جو وہ مانگے ۔ رسول اللہ نے فرمایا: پڑھو: بندہ الحمد لله رب العالمين کہتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی، بندہ الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری توصیف کی، بندہ مالک يوم الدين کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی، بندہ إياک نعبد وإياک نستعين کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، پھر بندہ اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: یہ سب میرے بندے کے لیے ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ٢ (٢٩٥٣)، سنن النسائی/الافتتاح ٢٣ (٩١٠)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١١ (٨٣٨)، (تحفة الأشراف: ١٤٩٣٥، ١٤٠٤٥)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩)، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٨٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: نماز سے مراد سورة فاتحہ ہے، تعظیماً کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ٢ ؎: جو لوگ بسم اللہ کو سورة فاتحہ کا جزء نہیں مانتے ہیں اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ بسم اللہ کے سورة فاتحہ کے جزء ہونے کی صورت میں اس حدیث میں اس کا بھی ذکر ہونا چاہیے جیسے اور ساری آیتوں کا ذکر ہے۔
Ubadah bin al-Samit reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: the prayer is not valid I one does not recite fatihat al-kitab and something more, sufyan ( the narrator) said: This applies to a man who prays alone.
Top