سنن ابو داؤد - کتاب الزکوٰة - حدیث نمبر 1567
حدیث نمبر: 1567
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخَذْتُ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ كِتَابًا زَعَمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍكَتَبَهُ لِأَنَسٍ وَعَلَيْهِ خَاتِمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا وَكَتَبَهُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فِيهِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَجْعَلَ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ مِنْ هَاهُنَا لَمْ أَضْبِطْهُ عَنْ مُوسَى كَمَا أُحِبُّ، ‏‏‏‏‏‏وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ إِلَى هَاهُنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتْقَنْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَشَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ ثَلَاثَ مِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ أَرْبَعِينَ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا.
چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے: یہ ابوبکر ؓ نے انس ؓ کے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کردی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی: یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے: پچیس (٢٥) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہوجائیں تو پینتیس (٣٥) تک میں ایک بنت مخاض ١ ؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس (٣٦) اونٹ ہوجائیں تو پینتالیس (٤٥) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (٤٦) اونٹ پورے ہوجائیں تو ساٹھ (٦٠) تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (٦١) اونٹ ہوجائیں تو پچہتر (٧٥) تک میں ایک جذعہ واجب ہوگی، جب چھہتر (٧٦) اونٹ ہوجائیں تو نوے (٩٠) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے (٩١) ہوجائیں تو ایک سو بیس (١٢٠) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (١٢٠) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (٤٠) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (٥٠) میں ایک حقہ دینا ہوگا۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کرلی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کرلی جائے گی ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا سے لے کر ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه تک اچھی ضبط نہ کرسکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے: یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کرلیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس (٤٠) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (١٢٠) تک ایک بکری دینی ہوگی، جب ایک سو اکیس (١٢١) ہوجائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو (٣٠٠) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہوگی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکاۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کرلیں گے ٢ ؎۔ اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ٣٣ (١٤٤٨)، ٣٩ (١٤٥٥)، الشرکة ٢ (٢٤٨٧)، فرض الخمس ٥ (٣٠١٦)، الحیل ٣ (٦٩٥٥)، سنن النسائی/الزکاة ٥ (٢٤٤٩)، ١٠ (٢٤٥٧)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ١٠ (١٨٠٠)، (تحفة الأشراف: ٦٥٨٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/١١، ١٣) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: بنت مخاض، بنت لبون، حقہ، جذعہ وغیرہ کی تشریح آگے باب نمبر (٧) تفسیر انسان الابل میں دیکھئے۔ ٢ ؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، محصل آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور (٢٥) چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر، اب اگر محصل نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپے واپس کرے گا، اور اگر محصل نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔
Narrated Hammad (RA) : I took a letter from Thumamah bin Abdullah bin Anas. He presumed that Abu Bakr had written it for Anas when he sent him (to Al Bahrain) as a collector of zakat. This (letter) was stamped with the stamp of the Messenger of Allah ﷺ and was written by Abu Bakr for him (Anas). This letter goes “This is the obligatory sadaqah (zakat) which the Messenger of Allah ﷺ imposed on Muslims which Allah commanded his Prophet ﷺ to impose. Those Muslims who are asked for the proper amount must give it, but those who are asked for more than that must not give it. For less than twenty five Camels a goat is to be given for every five Camels. When they reach twenty five to thirty five, a she Camel in her second year is to be given. If there is no she Camel in her second year, a male Camel in its third year is to be given. When they reach thirty six to forty five, a she Camel in her third year is to be given. When they reach forty six to sixty, a she Camel in her fourth year which is ready to be covered by a stallion is to be given. When they reach sixty one to seventy five, a she Camel in her fifth year is to be given. When they reach seventy six to ninety, two she Camel in their third year are to be given. When they reach ninety one to a hundred and twenty, two she Camels in their fourth year are ready to be covered by a stallion are to be given. When they exceed a hundred and twenty, a she Camel in her third year is to be given for every forty and a she Camel in her fourth year for every fifty (Camels). In case the ages of the Camel vary in the payment of obligatory sadaqah (zakat) If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fifth year is payable does not possess one but possess one in her fourth year, that will be accepted from him along with two goats if he can conveniently give them, or else twenty dirhams. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fourth year is payable does not possess but possesses one in her fifth year, that will be accepted from him, and the collector must give him twenty dirhams or two goats. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fourth year is payable possesses only one in her third year, that will be accepted from him. ” Abu Dawud said From here I could not retain accurately from Musa as I liked “And he must give along with it two goats if he can conveniently give them, or else twenty dirhams. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her third year is payable possesses only one in her fourth year, that will be accepted from him. ” Abu Dawud said (I was doubtful) up to here, and retained correctly onward “and the collector must give him twenty dirhams or two goats. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her third year is payable does not possess one but possesses one in her second year, that will be accepted from him, but he must give two goats or twenty dirhams. Anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her second year is payable does not possess one but possesses a male Camel in its third year, that will be accepted from him, and nothing extra will be demanded along with it. If anyone possesses only four Camels, no zakat will be payable on them unless their owner wishes. If the numbers of the pasturing goats reach forty to one hundred and twenty, one goat is to be given. Over one hundred and twenty up to two hundred, two goats are to be given. If they exceed two hundred reaching three hundred, three goats are to be given. If they exceed three hundred, a goat is to be for every hundred. An old sheep, one with a defect in the eye, or a male goat is not to be accepted as sadaqah (zakat) unless the collector wishes. Those which are in separate flocks are not to be brought together and those which are in one flock are not to be separated from fear of sadaqah (zakat). Regarding what belongs to two partners, they can make claims for restitution from one another with equity, If a man’s pasturing animals are less than forty, no sadaqah (zakat) is due on them unless their owner wishes. On sliver dirhams a fortieth is payable, but if there are only a hundred and ninety, nothing is payable unless their owner wishes. ”
Top