صحيح البخاری - احکام کا بیان - حدیث نمبر 7170
حدیث نمبر: 7170
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ:‏‏‏‏ مَنْ لَهُ بَيِّنَةٌ عَلَى قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَى قَتِيلِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرْتُ أَمْرَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ:‏‏‏‏ سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْكُرُ عِنْدِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَرْضِهِ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ كَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ اللَّيْثِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ:‏‏‏‏ الْحَاكِمُ لَا يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذَلِكَ فِي وِلَايَتِهِ أَوْ قَبْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ أَقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لِآخَرَ بِحَقٍّ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حَتَّى يَدْعُوَ بِشَاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُمَا إِقْرَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِرَاقِ:‏‏‏‏ مَا سَمِعَ أَوْ رَآهُ فِي مَجْلِسِ الْقَضَاءِ قَضَى بِهِ وَمَا كَانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إِلَّا بِشَاهِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ آخَرُونَ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ بَلْ يَقْضِي بِهِ لِأَنَّهُ مُؤْتَمَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنَ الشَّهَادَةِ مَعْرِفَةُ الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏فَعِلْمُهُ أَكْثَرُ مِنَ الشَّهَادَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ بَعْضُهُمْ:‏‏‏‏ يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الْأَمْوَالِ وَلَا يَقْضِي فِي غَيْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ الْقَاسِمُ:‏‏‏‏ لَا يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُمْضِيَ قَضَاءً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمِ غَيْرِهِ مَعَ أَنَّ عِلْمَهُ أَكْثَرُ مِنْ شَهَادَةِ غَيْرِهِ وَلَكِنَّ فِيهِ تَعَرُّضًا لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِنْدَ الْمُسْلِمِينَ وَإِيقَاعًا لَهُمْ فِي الظُّنُونِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظَّنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا هَذِهِ صَفِيَّةُ.
جھگڑنے والوں کے لئے قاضی کی گواہی حاکم کے سامنے ہونی چاہیے، خواہ قاضی ہونے سے پہلے گواہ ہویا گفتگو ہونے کے بعد، قاضی شریح سے ایک آدمی نے اپنی گواہی دینے کے لئے کہا جس شخص کا مقدمہ انہیں کے پاس تھا انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ امیر کے پاس چلو میں تمہاری گواہی دوں گا، اور عکرمہ نے کہا کہ حضرت عمر نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ اگر تم کسی آدمی کو زنا یا چوری کرتا دیکھو اور تم امیر ہو تو کیا تم محض اپنے دیکھنے پر اس کو حد لگادو گے، عبدالرحمن نے کہا تمہاری گواہی ایک عام مسلمان جیسی ہے، حضرت عمر نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، پھر حضرت عمرنے کہا کہ اگر میں یہ خوف نہ کر تاکہ لوگ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی ہے تو رجم کرنے والی آیت کو اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا، اور ماعز نے نبی ﷺ کے سامنے چار مرتبہ اقرار کیا تو آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، اور یہ کسی نے کہا کہ نبی ﷺ نے حاضرین کو گواہ بنایا، حماد نے کہا کہ جب زانی ایک بار اقرار کرے تو اسے رجم کردیا جائے اور حکم نے کہا کہ چار بارا قرار کرے توا سے رجم کیا جائے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے عمر بن کثیر نے، ان سے ابوقتادہ کے غلام ابو محمد نافع نے اور ان سے ابوقتادہ ؓ نے کہ رسول اللہ نے حنین کی جنگ کے دن فرمایا جس کے پاس کسی مقتول کے بارے میں جسے اس نے قتل کیا ہو گواہی ہو تو اس کا سامان اسے ملے گا۔ چناچہ میں مقتول کے لیے گواہ تلاش کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو میرے لیے گواہی دے سکے، اس لیے میں بیٹھ گیا۔ پھر میرے سامنے ایک صورت آئی اور میں نے اس کا ذکر نبی کریم سے کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے کہا کہ اس مقتول کا سامان جس کا ابوقتادہ ذکر کر رہے ہیں، میرے پاس ہے۔ انہیں اس کے لیے راضی کر دیجئیے (کہ وہ یہ ہتھیار وغیرہ مجھے دے دیں) اس پر ابوبکر ؓ نے کہا کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو نظر انداز کر کے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے وہ قریش کے معمولی آدمی کو ہتھیار نہیں دیں گے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم نے حکم دیا اور انہوں نے ہتھیار مجھے دے دئیے اور میں نے اس سے ایک باغ خریدا۔ یہ پہلا مال تھا جو میں نے (اسلام کے بعد) حاصل کیا تھا۔ امام بخاری (رح) نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن صالح نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے کہ پھر نبی کریم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان دلا دیا، اور اہل حجاز، امام مالک وغیرہ نے کہا کہ حاکم کو صرف اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا درست نہیں۔ خواہ وہ معاملہ پر عہدہ قضاء حاصل ہونے کے بعد گواہ ہوا ہو یا اس سے پہلے اور اگر کسی فریق نے اس کے سامنے دوسرے کے لیے مجلس قضاء میں کسی حق کا اقرار کیا تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس بنیاد پر وہ فیصلہ نہیں کرے گا بلکہ دو گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے اقرار کرائے گا۔ اور بعض اہل عراق نے کہا ہے کہ جو کچھ قاضی نے عدالت میں دیکھا یا سنا اس کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن جو کچھ عدالت کے باہر ہوگا اس کی بنیاد پر دو گواہوں کے بغیر فیصلہ نہیں کرسکتا اور انہیں میں سے دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کی بنیاد پر بھی فیصلہ کرسکتا ہے کیونکہ وہ امانت دار ہے۔ شہادت کا مقصد تو صرف حق کا جاننا ہے پس قاضی کا ذاتی علم گواہی سے بڑھ کر ہے۔ اور بعض ان میں سے کہتے ہیں کہ اموال کے بارے میں تو اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرے گا اور اس کے سوا میں نہیں کرے گا اور قاسم نے کہا کہ حاکم کے لیے درست نہیں کہ وہ کوئی فیصلہ صرف اپنے علم کی بنیاد پر کرے اور دوسرے کے علم کو نظر انداز کر دے گو قاضی کا علم دوسرے کی گواہی سے بڑھ کر ہے لیکن چونکہ عام مسلمانوں کی نظر میں اس صورت میں قاضی کے مہتمم ہونے کا خطرہ ہے اور مسلمانوں کو اس طرح بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے اور نبی کریم نے بدگمانی کو ناپسند کیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ صفیہ میری بیوی ہیں۔
Narrated Abu Qatada (RA) : Allahs Apostle ﷺ said on the Day of (the battle of) Hunain, "Whoever has killed an infidel and has a proof or a witness for it, then the salb (arms and belongings of that deceased) will be for him." I stood up to seek a witness to testify that I had killed an infidel but I could not find any witness and then sat down. Then I thought that I should mention the case to Allahs Apostle ﷺ I (and when I did so) a man from those who were sitting with him said, "The arms of the killed person he has mentioned, are with me, so please satisfy him on my behalf." Abu Bakr (RA) said, "No, he will not give the arms to a bird of Quraish and deprive one of Allahs lions of it who fights for the cause of Allah and His Apostle." Allahs Apostle ﷺ I stood up and gave it to me, and I bought a garden with its price, and that was my first property which I owned through the war booty. The people of Hijaz said, "A judge should not pass a judgment according to his knowledge, whether he was a witness at the time he was the judge or before that" And if a litigant gives a confession in favor of his opponent in the court, in the opinion of some scholars, the judge should not pass a judgment against him till the latter calls two witnesses to witness his confession. And some people of Iraq said, "A judge can pass a judgement according to what he hears or witnesses (the litigants confession) in the court itself, but if the confession takes place outside the court, he should not pass the judgment unless two witnesses witness the confession." Some of them said, "A judge can pass a judgement depending on his knowledge of the case as he is trust-worthy, and that a witness is Required just to reveal the truth. The judges knowledge is more than the witness." Some said, "A judge can judge according to his knowledge only in cases involving property, but in other cases he cannot." Al-Qasim said, "A judge ought not to pass a judgment depending on his knowledge if other people do not know what he knows, although his knowledge is more than the witness of somebody else because he might expose himself to suspicion by the Muslims and cause the Muslims to have unreasonable doubt. "
Top