صحيح البخاری - جہاد اور سیرت رسول اللہ ﷺ - حدیث نمبر 3133
حدیث نمبر: 3133
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنِي وَأَنَا لِحَدِيثِ الْقَاسِمِ أَحْفَظُ، ‏‏‏‏‏‏ الْقَاسِمُ بْنُ عَاصِمٍ الْكُلَيْبِيُّ عَنْ زَهْدَمٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى فَأُتِيَ ذَكَرَ دَجَاجَةً وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مِنَ الْمَوَالِي فَدَعَاهُ لِلطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ لَا آكُلُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلُمَّ فَلْأُحَدِّثْكُمْ عَنْ ذَاكَ إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ فَسَأَلَ عَنَّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قُلْنَا مَا صَنَعْنَا لَا يُبَارَكُ لَنَا فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ إِنَّا سَأَلْنَاكَ أَنْ تَحْمِلَنَا فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا أَفَنَسِيتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا.
باب: اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے ہے وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھا، آپ ﷺ سے درخواست کی، ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑ دو۔
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے کہا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا اور (ایوب نے ایک دوسری سند کے ساتھ اس طرح روایت کی ہے کہ) مجھ سے قاسم بن عاصم کلیبی نے بیان کیا اور کہا کہ قاسم کی حدیث (ابوقلابہ کی حدیث کی بہ نسبت) مجھے زیادہ اچھی طرح یاد ہے ‘ زہدم سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ابوموسیٰ اشعری ؓ کی مجلس میں حاضر تھے (کھانا لایا گیا اور) وہاں مرغی کا ذکر ہونے لگا۔ بنی تمیم اللہ کے ایک آدمی سرخ رنگ والے وہاں موجود تھے۔ غالباً موالی میں سے تھے۔ انہیں بھی ابوموسیٰ ؓ نے کھانے پر بلایا ‘ وہ کہنے لگے کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ایک مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے بڑی نفرت ہوئی اور میں نے قسم کھالی کہ اب کبھی مرغی کا گوشت نہ کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ قریب آجاؤ (تمہاری قسم پر) میں تم سے ایک حدیث اسی سلسلے کی بیان کرتا ہوں ‘ قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر میں نبی کریم کی خدمت میں (غزوہ تبوک کے لیے) حاضر ہوا اور سواری کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہاری سواری کے کام آسکے۔ پھر آپ کی خدمت میں غنیمت کے کچھ اونٹ آئے ‘ تو آپ نے ہمارے متعلق دریافت فرمایا ‘ اور فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگ کہاں ہیں؟ چناچہ آپ نے پانچ اونٹ ہمیں دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا ‘ خوب موٹے تازے اور فربہ۔ جب ہم چلنے لگے تو ہم نے آپس میں کہا کہ جو نامناسب طریقہ ہم نے اختیار کیا اس سے آپ کے اس عطیہ میں ہمارے لیے کوئی برکت نہیں ہوسکتی۔ چناچہ ہم پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے پہلے جب آپ سے درخواست کی تھی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تمہاری سواری کا انتظام نہیں کرسکوں گا۔ شاید آپ کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو ‘ لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری سواری کا انتظام واقعی نہیں کیا ‘ وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں یہ سواریاں دے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! تم اس پر یقین رکھو کہ انشاء اللہ جب بھی میں کوئی قسم کھاؤں ‘ پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہوجائے کہ بہتر اور مناسب طرز عمل اس کے سوا میں ہے تو میں وہی کروں گا جس میں اچھائی ہوگی اور قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
Narrated Zahdam (RA): Once we were in the house of Abu Musa (RA) who presented a meal containing cooked chicken. A man from the tribe of Bani Taim Allah with red complexion as if he were from the Byzantine war prisoners, was present. Abu Musa (RA) invited him to share the meal but he (apologised) saying. "I saw chickens eating dirty things and so I have had a strong aversion to eating them, and have taken an oath that I will not eat chickens." Abu Musa (RA) said, "Come along, I will tell you about this matter (i.e. how to cancel ones oat ). I went to the Prophet ﷺ in the company of a group of Al-Ashariyin, asked him to provide us with means of conveyance. He said, By Allah, I will not provide you with any means of conveyance and I have nothing to make you ride on. Then some camels as booty were brought to Allahs Apostle ﷺ and he asked for us saying. Where are the group of Al-Ashariyun? Then he ordered that we should be given five camels with white humps. When we set out we said, What have we done? We will never be blessed (with what we have been given). So, we returned to the Prophet ﷺ and said, We asked you to provide us with means of conveyance, but you took an oath that you would not provide us with any means of conveyance. Did you forget (your oath when you gave us the camels)? He replied. I have not provided you with means of conveyance, but Allah has provided you with it, and by Allah, Allah willing, if ever I take an oath to do something, and later on I find that it is more beneficial to do something different, I will do the thing which is better, and give expiation for my oath."
Top