صحيح البخاری - وصیتوں کا بیان - حدیث نمبر 2778
33- بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ:
وَأَوْقَفَ أَنَسٌ دَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا قَدِمَهَا نَزَلَهَا وَتَصَدَّقَ الزُّبَيْرُ بِدُورِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ:‏‏‏‏ أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مُضَرٍّ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ فَلَيْسَ لَهَا حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ نَصِيبَهُ مِنْ دَارِ عُمَرَ سُكْنَى لِذَوِي الْحَاجَةِ مِنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ.
وَقَالَ عَبْدَانُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ حُوصِرَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَنْشُدُ إِلَّا أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ فَحَفَرْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَهَّزْتُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ. وَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فِي وَقْفِهِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ وَقَدْ يَلِيهِ الْوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهُوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ.
باب: کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لیے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کر لی تو یہ بھی درست ہے۔
باب: کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لیے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کرلی تو یہ بھی درست ہے
اور انس بن مالک ؓ نے ایک گھر وقف کیا تھا (مدینہ میں) جب کبھی مدینہ آتے ‘ اس گھر میں قیام کیا کرتے تھے اور زبیر ؓ نے اپنے گھروں کو وقف کردیا تھا اور اپنی ایک مطلقہ لڑکی سے فرمایا تھا کہ وہ اس میں قیام کریں لیکن اس گھر کو نقصان نہ پہنچائیں اور نہ اس میں کوئی دوسرا نقصان کرے اور جو خاوند والی بیٹی ہوتی اس کو وہاں رہنے کا حق نہیں اور ابن عمر ؓ نے عمر ؓ کے (وقف کردہ) گھر میں رہنے کا حصہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا۔
عبدان نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں ابواسحاق نے ‘ انہیں ابوعبدالرحمٰن نے کہ جب عثمان غنی ؓ محاصرے میں لیے گئے تو (اپنے گھر کے) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ نے فرمایا جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آپ نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت (غزوہ تبوک پر جانے والے لشکر) کو جو شخص ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی۔ عمر ؓ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگر اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہوسکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہوسکتے ہیں اور ہر ایک کے لیے یہ جائز ہے۔
Abu Abdur-Rahman narrated: When Uthman (RA) was circled (by the rebels), he looked upon them from above and said, "Ias you by Allah, I ask nobody but the Companions of the Prophet ﷺ, dont you know that Allahs Messenger ﷺ said, Whoever will (buy and) dig the well of Ruma will be granted Paradise, and I (bought and) dug it? Dont you know that he said. Whoever equip the army of Usra (i.e., Tabuks Ghazwa) will be granted Paradise, and I equipped it ?" They attested whatever he said. When Umar founded his endowment he said, "Its administrator can eat from it". The management of the endowment can be taken over by the founder himself or any other person, for both cases are permissible.
Top