سنن ابنِ ماجہ - اذان کا بیان - حدیث نمبر 723
حدیث نمبر: 723
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَبُوهُ فِي حِجْر أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِي أَبُو سَعِيدٍ:‏‏‏‏ إِذَا كُنْتَ فِي الْبَوَادِي فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالْأَذَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يَسْمَعُهُ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ.
اذان کی فضیلت اور اذازن دینے والوں کا ثواب
عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری ؓ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید ؓ نے کہا: جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٤١٠٥، ومصباح الزجاجة: 268)، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان ٥ (٦٠٨)، بدء الخلق ١٢ (٣٢٩٦)، التوحید ٥٢ (٧٥٤٨)، سنن النسائی/الأذان ١٤ (٦٤٥)، موطا امام مالک/الصلاة ١ (٥)، مسند احمد (٣/٣٥، ٤٣) (صحیح) (ولا شجر ولا حجر کا لفظ صرف ابن ماجہ میں ہے، اور ابن خزیمہ میں بھی ایسے ہی ہے )
وضاحت: ١ ؎: تو جتنی دور آواز پہنچے گی گواہ زیادہ ہوں گے، اور صحراء و بیابان کی قید اس لئے ہے کہ آبادی میں گواہوں کی کمی نہیں ہوتی، آدمی ہی بہت ہوتے ہیں اس لئے زیادہ آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ آواز بلند کرنا مستحب ہے۔
It was narrated from ‘Abdullâh bin ‘Abdur-Rahman bin Abu Sa’sa’ah that his father, who was under the care of Abu Sa’eed, said: “Abu Sa’eed said to me: ‘If you are in the desert, raise your voice when you say the Adhân, for I heard the Messenger of Allah ﷺ say: ‘No jinn, human, tree or rock will hear it, but it will bear witness for you.’” (Sahih)
Top