سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1073
حدیث نمبر: 1073
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُالسَّائِب بْنَ يَزِيدَ مَاذَا سَمِعْتَ فِي سُكْنَى مَكَّةَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ثَلَاثًا لِلْمُهَاجِرِ بَعْدَ الصَّدَرِ.
جب مسافر کسی شہر میں قیام کرے تو کب تک قصر کرے ؟
عبدالرحمٰن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی ؓ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مہاجرین کو منٰی سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الانصار ٤٧ (٣٩٣٣)، صحیح مسلم/الحج ٨١ (١٣٥٢)، سنن ابی داود/الحج ٩٢ (٢٠٢٢)، سنن الترمذی/الحج ١٠٣ (٩٤٩)، سنن النسائی/تقصیرالصلاة ٤ (١٤٥٥، ١٤٥٦)، (تحفة الأشراف: ١١٠٠٨)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٣٣٩، ٥/٥٢)، سنن الدارمی/الصلاة ١٨٠ (١٥٥٣) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مہاجر وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، آپ نے مہاجرین کو تین دن سے زیادہ مکہ میں رہنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث کا تعلق ترجمہ باب سے معلوم نہیں ہوتا مگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب مہاجرین کو جو کہ مکہ میں مسافر تھے نبی اکرم نے تین دن رہنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ تین دن کی اقامت سے سفر کا حکم باطل نہیں ہوتا، پس اگر کوئی مسافر کسی شہر میں تین دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، اور اس مسئلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے لیکن اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے کہ اگر تردد و شک کے ساتھ مسافر کو کہیں ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو بیس دن تک قصر کرتا رہے، اس کے بعد پوری نماز ادا کرے، کیونکہ جابر ؓ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم نے تبوک میں بیس راتوں تک کی اقامت میں قصر کا حکم دیا، اس واسطے کہ قصر حالت سفر میں مشروع تھا، اور جب اقامت کی تو سفر نہ رہا، اور اگر یقین کے ساتھ مسافر کہیں ٹھہرنے کا ارادہ کرے، تو اگر چار دن یا زیادہ کی اقامت کی نیت کرے، تو چار دن کے بعد نماز پوری پڑھے، اور جو چار دن سے کم رہنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حنبلی مذہب کا مشہور مسئلہ ہے، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی کریم ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے، اور ساتویں دن تک قیام فرمایا، اور آٹھویں تاریخ کی صبح کو نماز فجر پڑھ کر منیٰ تشریف لے گئے، اور چار دنوں میں مکہ میں قصر کرتے رہے، جبکہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے مکہ میں انیس دن تک نماز قصر ادا کی (صحیح البخاری)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کی حد چار دن نہیں ہے، سنن ابی داود ( ١٢٣٥ ) میں جابر ؓ سے مروی ہے کہ تبوک میں بیس دن تک اقامت رہی، اور قصر پڑھتے رہے، مختلف احادیث میں مختلف مدتوں کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی تعارض کی بات ہے، رواۃ نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا، راجح قول یہی ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کرے نماز کو قصر کرے اور جمع بھی، جب تک کہ اقامت کی نیت نہ کرے اور سفر کو ختم نہ کر دے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے قصر و افطار اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اقامت اور سکونت نہ اختیار کرلے، اور چند دن کی اقامت کی نیت سے مقیم اور مسافر کے درمیان فرق وتمیز شرع اور عرف میں غیر معروف چیز ہے۔
It was narrated that Abdur-Rahman bin Humaid Az-Zuhri said: "I asked Saib bin Yazid: What have you heard about staying in Makkah? He said: I heard Ala bin Hadrami say: "The Prophet ﷺ said: Three (days) for the Muhajir after departing (from Mina). (Sahih)
Top