سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1078
حدیث نمبر: 1078
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ.
نماز چھوڑ نے والے کی سزا
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز کا چھوڑنا ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ١٥ (٤٦٧٨)، سنن الترمذی/الإیمان ٩ (٢٦٢٠)، (تحفة الأشراف: ٢٧٤٦)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان ٣٥ (٨٢)، سنن النسائی/الصلاة ٨ (٤٦٤، ٤٦٥)، مسند احمد (٣/٣٧٠، ٣٨٩)، سنن الدارمی/الصلاة ٢٩ (١٢٦٩) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز ہی حد فاصل اور حائل ہے، جہاں نماز چھوڑی یہ حد فاصل اٹھ گئی اور آدمی کافر ہوگیا، یہی امام احمد اور اصحاب حدیث کا مذہب ہے اور حماد بن زید، مکحول، مالک اور شافعی نے کہا کہ تارک نماز کا حکم مثل مرتد کے ہے، یعنی اگر توبہ نہ کرے تو وہ واجب القتل ہے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک تارک نماز کافر نہ ہوگا، لیکن کفر کے قریب ہوجائے گا، حالانکہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: نماز کا ترک کفر ہے، اور ایسا ہی منقول ہے عمر اور دوسرے صحابہ کرام ؓ سے، جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز کے چھوڑ دینے کو حلال سمجھے، وہ شخص جو محض سستی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے وہ کافر نہیں ہوتا، لیکن بعض محققین کے نزدیک نماز کی فرضیت کے عدم انکار کے باوجود عملاً و قصداً نماز چھوڑ دینے والا بھی کافر ہے، دیکھئے اس موضوع پر عظیم کتاب تعظيم قدر الصلاة تالیف امام محمد بن نصر مروزی، ب تحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی، اور تارک صلاۃ کا حکم تالیف شیخ محمد بن عثیمین، ترجمہ ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی۔
It was narrated that Jâbir bin ‘Abdullah said: “The Messenger of Allah ﷺ said: Between a person and Kufr (disblief) is abandoning the prayer.’” (Sahih)
Top