سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1111
حدیث نمبر: 1111
حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ:‏‏‏‏ تَبَارَكَ وَهُوَ قَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَّرَنَا بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَبُو الدَّرْدَاءِ أَوْ أَبُو ذَرٍّ يَغْمِزُنِي فَقَالَ:‏‏‏‏ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ؟ إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهَا إِلَّا الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنِ اسْكُتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْصَرَفُوا قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُكَ مَتَى أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ؟ فَلَمْ تُخْبِرْنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أُبَيٌّ:‏‏‏‏ لَيْسَ لَكَ مِنْ صَلَاتِكَ الْيَوْمَ إِلَّا مَا لَغَوْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَ أُبَيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَدَقَ أُبَيٌّ.
خطبہ توجہ سے سننا اور خطبہ کے وقت کا موش رہنا
ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن منبر پر کھڑے ہو کر سورة تبارک (سورۃ الملک) پڑھی، اور ہمیں اللہ عزوجل کی طرف سے گزشتہ قوموں پر پیش آنے والے اہم واقعات سے نصیحت کی، ابوالدرداء ؓ یا ابوذر ؓ نے میری جانب نظر سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سورة کب نازل ہوئی؟ میں نے تو یہ ابھی سنی ہے، تو ابی بن کعب ؓ نے ان کو اشارہ کیا کہ خاموش رہو، جب وہ لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوالدرداء ؓ یا ابوذر ؓ نے ابی ؓ سے کہا کہ میں نے آپ سے پوچھا کہ یہ سورة کب نازل ہوئی تو آپ نے نہیں بتایا، ابی بن کعب ؓ نے کہا کہ آج آپ کو آپ کی نماز میں ان لغو باتوں کے سوا کچھ بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا، چناچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، اور ابی ؓ نے جو بات کہی تھی وہ بھی بتائی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابی نے سچ کہا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٦٨، ومصباح الزجاجة: ٣٩٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/١٤٣) (صحیح) (ابوذر ؓ کی حدیث سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ٨٠ -٨١ )
وضاحت: ١ ؎: مسند احمد اور سنن ابوداود میں علی ؓ سے روایت ہے کہ جو شخص امام کے نزدیک بیٹھا لیکن اس نے لغو حرکت کی اور خطبہ نہیں سنا، اور خاموش نہیں رہا، تو اس پر وبال کا ایک حصہ ہوگا، اور جس نے کہا: خاموش رہو تو اس نے لغو کیا اور جس نے لغو کیا، اس کا جمعہ نہ ہوا، علی ؓ کہتے ہیں کہ ایسا ہی میں نے نبی کریم سے سنا، اس باب کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ پڑھنے کے لئے آنے والے پر ہر طرح کی دینی اور دنیاوی بات چیت خطبہ کے دوران ممنوع ہے۔ جس میں ذکر و اذکار بھی داخل ہے، اسی طریقے سے ایک دوسرے کو نصیحت و تلقین بھی، ہاں! ضرورت و حاجت اور شرعی مصلحت کے پیش نظر امام سامعین سے مخاطب ہوسکتا ہے، جیسا کہ کئی احادیث میں رسول اللہ سے یہ ثابت ہے۔ خود آگے کی حدیث میں سلیک غطفانی ؓ کو آپ نے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، نیز سامعین خطبہ کے دوران امام کی متابعت میں صلاۃ وسلام اور اس کی دعاؤں پر آمین بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ اس سے خطبہ کے سننے میں یا مسجد کے احترام میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔
Ata bin Yasar narrated from Ubayy bin Ka`b: "The Messenger of Allah ﷺ recited Tabdrak [Al-Mulk (67)] one Friday, while he was standing and reminding us of the Days of Allah (i.e., preaching to us). Abu Darda or Abu Dharr (RA) raised an eyebrow at me and said: When was this Surah revealed? For I have not heard it before now. He (Ubayy) gestured to him that he should remain silent. When they finished, he said: I asked you when this Surah was revealed and you did not answer me." Ubayy said: You have gained nothing from your prayer today except the idle talk that you engaged in. He went to the Prophet ﷺ and told him about that, and what Ubayy had said to him. The Messenger of Allah ﷺ said: Ubayy spoke the truth. (Hasan)
Top