سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1266
حدیث نمبر: 1266
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كِنَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرْسَلَنِي أَمِيرٌ مِنَ الْأُمَرَاءِ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُهُ عَنِ الصَّلَاةِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَهُ أَنْ يَسْأَلَنِي؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاضِعًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَبَذِّلًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَخَشِّعًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَرَسِّلًا، ‏‏‏‏‏‏مُتَضَرِّعًا، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ كَمَا يُصَلِّي فِي الْعِيدِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَخْطُبْ خُطْبَتَكُمْ هَذِهِ.
نماز استسقاء
اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ امراء میں سے کسی امیر نے مجھے ابن عباس ؓ کے پاس نماز استسقاء کے متعلق پوچھنے کے لیے بھیجا، تو ابن عباس ؓ نے کہا: امیر نے مجھ سے خود کیوں نہیں پوچھ لیا؟ پھر بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عاجزی کے ساتھ سادہ لباس میں، خشوع خضوع کے ساتھ، آہستہ رفتار سے، گڑگڑاتے ہوئے (عید گاہ کی طرف) روانہ ہوئے، پھر آپ ﷺ نے نماز عید کی طرح دو رکعت نماز پڑھائی، اور اس طرح خطبہ نہیں دیا جیسے تم دیتے ہو ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ٢٥٨ (١١٦٥)، سنن الترمذی/الصلاة ٢٧٨ (الجمعة ٤٣) (٥٥٨، ٥٥٩)، سنن النسائی/الاستسقاء ٣ (١٥٠٧)، ٤ (١٥٠٩)، ١٣ (١٥٢٢)، (تحفة الأشراف: ٥٣٥٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٢٣٠، ٢٦٠، ٣٥٥) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: ٥٣٤ )
وضاحت: ١ ؎: حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے کہ نبی اکرم نے اپنی امت کے لئے استسقاء کئی بار مختلف طریقوں سے کیا لیکن جو طریقہ سنت کا اپنی امت کے لئے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لوگوں سمیت نہایت عاجزی کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے، اور دو رکعتیں پڑھیں، ان میں زور سے قراءت کی، پھر خطبہ پڑھا، اور قبلے کی طرف منہ کیا، خطبہ میں دعا مانگی، اور دونوں ہاتھ اٹھائے، اور اپنی چادر پلٹی، استسقاء کی نماز دو رکعت مسنون ہے، ان کے بعد خطبہ ہے، اس کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک استسقاء میں صرف دعا اور استغفار کافی ہے، جب کہ متعدد احادیث میں نماز وارد ہے، اور جن حدیثوں میں نماز کا ذکر نہیں ان سے نماز کی نفی لازم نہیں آتی، اور ابن ابی شیبہ نے جو عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ وہ استسقاء کو نکلے پھر نہ زیادہ کیا استغفار پر، یہ ایک صحابی کا موقوف اثر ہے، قطع نظر اس کے سنت کے ترک سے اس کی سنیت باطل نہیں ہوتی، اور اسی پر وہ مرفوع حدیث بھی محمول ہوگی جس میں نماز کا ذکر نہیں ہے، اور صحابہ کرام رسول اللہ کی زندگی میں آپ کا وسیلہ لیتے تھے اور عمر ؓ نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے چچا عباس ؓ کا وسیلہ لیا، اس معنی میں کہ نبی اکرم نے خود استسقاء کی نماز ادا فرمائی، اور بارش کی دعا کی، آپ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے یہاں اور کون تھا، پھر عمر ؓ نے آپ کے چچا عباس ؓ کو نماز استسقاء کے لیے آگے بڑھایا کیونکہ آپ کی بزرگی، صالحیت اور اللہ کے رسول سے تعلق کی وجہ سے اس بات کی توقع کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی دعا قبول ہوگی، اور بعض روایتوں میں نماز سے پہلے خطبہ وارد ہے، اور دونوں طرح صحیح ہے، (ملاحظہ ہو: الروضہ الندیہ)۔
It was narrated from Hisham bin Ishaq bin Abdullah bin Kinanah that his father said: “One of the chiefs sent me to Ibn ‘Abbâs to ask him about the prayer for rain. Ibn ‘Abbâs said: ‘What kept han from asking me?’ He said: ‘The Messenger of Allah ﷺ went out humbly, walking with a humble and moderate gait, imploring, and he performed two Rak’ah as he used to pray for ‘Eid, but he did not give a sermon like this sermon of yours.” (Hasan)
Top