سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1346
حدیث نمبر: 1346
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ حَكِيمِ بْنِ صَفْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَمَعْتُ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأْتُهُ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَخْشَى أَنْ يَطُولَ عَلَيْكَ الزَّمَانُ وَأَنْ تَمَلَّ، ‏‏‏‏‏‏فَاقْرَأْهُ فِي شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاقْرَأْهُ فِي عَشْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ دَعْنِي أَسْتَمْتِعْ مِنْ قُوَّتِي وَشَبَابِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى.
کتنے دن میں قرآن ختم کرنا مستحب ہے ؟
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ میں نے قرآن حفظ کیا، اور پورا قرآن ایک ہی رات میں پڑھنے کی عادت بنا لی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد تم اکتا جاؤ گے، لہٰذا تم اسے ایک مہینے میں پڑھا کرو میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے آپ ﷺ نے فرمایا: تو دس دن میں پڑھا کرو میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے تو سات دن میں پڑھا کرو میں نے کہا: مجھے اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیجئیے، تو آپ ﷺ نے انکار کردیا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٨٩٤٥)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم ٥٤ (١٩٧٨)، فضائل القرآن ٣٤ (٥٠٥٣، ٥٠٥٤)، صحیح مسلم/الصوم ٣٥ (١١٥٩)، سنن ابی داود/الصلاة ٣٢٥ (١٣٨٨)، سنن الترمذی/القراء ات ١٣ (٢٩٤٦)، سنن النسائی/الصیام ٤٥ (٢٣٩١، ٢٣٩٢)، مسند احمد (٢/١٦٣، ١٩٩)، سنن الدارمی/فضائل القرآن ٣٢ (٣٥١٣) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی سات دن سے کم میں ختم قرآن کی اجازت نہ دی، صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سات دن سے کم میں ختم قرآن نہ کرو، قسطلانی نے کہا کہ یہ نہی حرمت کے لئے نہیں ہے، اور بعض اہل ظاہر کے نزدیک تین دن سے کم میں قرآن ختم کرنا حرام ہے، نووی کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حد نہیں، جب تک جی لگے اور جتنی طاقت ہو، اس کے لحاظ سے قرآن پڑھے، اور بہتر یہی ہے کہ سات دن سے کم میں ختم نہ کرے، انتہاء تین دن میں، اور قرآن کے معانی اور مطالب میں غور و فکر کر کے پڑھے، اور ہمارے زمانہ میں تو قرآن کے معانی کا ترجمہ ہر زبان میں ہوگیا ہے، پس ترجمہ کے ساتھ تلاوت کرنا زیادہ ثواب ہے، فقیہ ابواللیث کہتے ہیں کہ اقل درجہ یہ ہے کہ آدمی سال بھر میں قرآن دو بار ختم کرے، اور حسن بن زیاد نے ابوحنیفہ رحمۃ اللہ سے نقل کیا ہے کہ جس نے سال بھر میں دو بار پورے قرآن کی قراءت مکمل کی اس نے قرآن کا حق ادا کیا، کیونکہ جبرئیل (علیہ السلام) نے جس سال نبی کریم کی وفات ہوئی، دو بار قرآن کا دور کیا، اور بعض نے کہا چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
It was narrated that ‘Abdullah bin ‘Amr said: “I memorized the Qura’an and recited it all in one night. The Messenger of Allah ﷺ said :’I am afraid that you may live a long life and that you may get bored. Recite it over the period of a month.’ I said: ‘Let me benefit from my strength and my youth.’ He said: ‘Recite it in ten days.’ I said let me benefit from my strength and my youth.’ He said: “recite it in seven days.’ I said: Let me benefit from my strength and my youth, but he refused (to alter it any further)." (Daif)
Top