سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1399
حدیث نمبر: 1399
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى آتِيَ عَلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُوسَى:‏‏‏‏ مَاذَا افْتَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَرَضَ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَاجَعْتُ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعَ عَنِّي شَطْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَاجَعْتُ رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هِيَ خَمْسٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ خَمْسُونَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي.
پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی نگہداشت کا بیان
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے (معراج کی رات) میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو میں انہیں لے کر لوٹا یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں میرے اوپر فرض کی ہیں، انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس پھرجائیں آپ کی امت انہیں ادا نہ کرسکے گی، میں اپنے رب کے پاس لوٹا، تو اس نے آدھی معاف کریں، میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا، اور ان سے بیان کیا، انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس واپس جائیں آپ کی امت اس کو انجام نہ دے سکے گی، چناچہ میں پھر اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے فرمایا: یہ (ادا کرنے میں) پانچ وقت کی نمازیں (شمار میں) ہیں، جو (ثواب میں) پچاس نماز کے برابر ہیں، میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا، اٹل ہوتا ہے، میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے کہا: اپنے رب کے پاس جائیں، تو میں نے کہا: اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ١ (٣٤٩)، الأنبیاء ٥ (٣٣٤٢)، صحیح مسلم/الإیمان ٧٤ (١٦٣)، سنن النسائی/الصلاة ١ (٤٥)، (تحفة الأشراف: ١٥٥٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یہ روایت مختصر ہے، مفصل واقعہ صحیحین اور دوسری کتابوں میں مذکور ہے، اس میں یہ ہے کہ پہلی بار اللہ تعالیٰ نے پچاس میں سے پانچ نمازیں معاف کیں، اور نبی اکرم موسیٰ (علیہ السلام) کے کہنے پر بار بار اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے رہے، اور پانچ پانچ نماز کم ہوتی رہیں یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں، یہی عدد اللہ تعالیٰ کے علم میں مقرر تھا، اس سے کم نہیں ہوسکتا تھا، سبحان اللہ مالک کی کیا عنایت ہے، ہم ناتواں بندوں سے پانچ نمازیں تو ادا ہو نہیں سکتیں، پچاس کیونکر پڑھتے، حدیث شریف سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رب العالمین عرش کے اوپر ہے، ورنہ بار بار نبی اکرم کس کے پاس جاتے تھے، اور اس سے جہمیہ، معتزلہ اور منکرین صفات کا رد ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو جہت اور مکان سے منزہ و پاک جانتے ہیں، اور لطف یہ ہے کہ باوجود اس کے پھر اس کو ہر جہت اور ہر مکان میں سمجھتے ہیں، یہ حماقت نہیں تو کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ (معاذ اللہ) ہر جہت اور ہر مکان میں ہوتا تو نبی اکرم کو ساتوں آسمانوں کے اوپر جانے کی کیا ضرورت تھی؟۔
It was narrated that Anas bin Malik (RA) said: "The Messenger of Allah ﷺ said: Allah enjoined fifty prayers upon my nation, and I came back with that until I came to Musa. Musa said: What has your Lord enjoined upon your nation? I said: He has enjoined fifty prayers on me: He said: Go back to your Lord, for your nation will not be able to do that. So I went back to my Lord, and He reduced it by half. I went back to Musa and told him, and he said: Go back to your Lord, for your nation will not be able to do that. So I went back to my Lord, and He said: They are five and they are fifty; My Word does not change. So I went back to Musa and he said: Go back to your Lord: I said: I feel shy before my Lord"
Top