سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 1419
حدیث نمبر: 1419
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعَ الْمُغِيرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا.
نماز میں لمبا قیام کرنا
مغیرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ آپ کے پیروں میں ورم آگیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ بخش دئیے ہیں (پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں (اللہ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ٦ (١١٣٠)، تفسیرالفتح ٢ (٤٨٣٦)، الرقاق ٢٠ (٦٤٧١)، صحیح مسلم/المنافقین ١٨ (٢٨١٩)، سنن الترمذی/الصلاة ١٨٨ (٤١٢)، سنن النسائی/قیام اللیل ١٥ (١٦٤٥)، (تحفة الأشراف: ١١٤٩٨)، مسند احمد (٤/٢٥١، ٢٥٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس مغفرت پر شکر نہ ادا کروں؟ سبحان اللہ! جب نبی کریم نے باوصف ایسے علو مرتبہ اور جلالت شان کے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ کا درجہ ہے، عبادت کو ترک نہ کیا، اور دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت و عبادت اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے تھے، تو کسی دوسرے کا یہ خیال کب صحیح ہوگا کہ آدمی جب ولایت کے اعلی درجہ کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے ذمہ سے عبادت ساقط ہوجاتی ہے، یہ صاف ملحدانہ خیال ہے، بلکہ جتنا بندہ اللہ سے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اس کا شوق عبادت بڑھتا جاتا ہے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ما أنزلنا عليك القرآن لتشقى یعنی ہم نے آپ پر اس لئے قرآن نہیں اتارا کہ آپ اتنی مشقت اٹھائیں (سورة طه: 2)۔
It was narrated from Ziyad bin "llaqah that he heard Mughirah say: "The Messenger of Allah ﷺ stood (in prayer) until his feet became swollen. It was said: O Messenger of Allah, Allah has forgiven you your past and future sins. He said: Should I not be a thankful slave?
Top