سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 5144
حدیث نمبر: 3342
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ صَنَعَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزَةً،‏‏‏‏ وَضَعَتْ فِيهَا شَيْئًا مِنْ سَمْنٍ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَتْ:‏‏‏‏ اذْهَبْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَادْعُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَتَيْتُهُ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أُمِّي تَدْعُوكَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَقَامَ وَقَالَ لِمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنَ النَّاسِ:‏‏‏‏ قُومُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَبَقْتُهُمْ إِلَيْهَا فَأَخْبَرْتُهَا،‏‏‏‏ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَاتِي مَا صَنَعْتِ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنَّمَا صَنَعْتُهُ لَكَ وَحْدَكَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ هَاتِيهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَنَسُ أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً عَشَرَةً،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا زِلْتُ أُدْخِلُ عَلَيْهِ عَشَرَةً عَشَرَةً،‏‏‏‏ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا وَكَانُوا ثَمَانِينَ.
گھی میں چپڑی ہوئی روٹی
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ (میری والدہ) ام سلیم ؓ نے نبی اکرم ﷺ کے لیے روٹی تیار کی، اور اس میں تھوڑا سا گھی بھی لگا دیا، پھر کہا: جاؤ نبی اکرم ﷺ کو بلا لاؤ، میں نے آپ کے پاس آ کر عرض کیا کہ میری ماں آپ کو دعوت دے رہی ہیں تو آپ کھڑے ہوئے اور اپنے پاس موجود سارے لوگوں سے کہا کہ اٹھو، چلو ، یہ دیکھ کر میں ان سب سے آگے نکل کر ماں کے پاس پہنچا، اور انہیں اس کی خبر دی (کہ نبی اکرم ﷺ بہت سارے لوگوں کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں) اتنے میں آپ ﷺ آپہنچے، اور فرمایا: جو تم نے پکایا ہے، لاؤ، میری ماں نے عرض کیا کہ میں نے تو صرف آپ کے لیے بنایا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: لاؤ تو سہی ، پھر فرمایا: اے انس! میرے پاس لوگوں میں سے دس دس آدمی اندر لے کر آؤ، انس ؓ کہتے ہیں کہ میں دس دس آدمی آپ کے پاس داخل کرتا رہا، سب نے سیر ہو کر کھایا، اور وہ سب اسّی کی تعداد میں تھے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٧٣١)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأطعمة ٦ (٥٣٨١)، صحیح مسلم/الأشربة ٢٠ (٢٠٤٠)، سنن الترمذی/المناقب ٦ (٣٦٣٠)، موطا امام مالک/صفة النبی صفة ١٠ (١٩)، مسند احمد (١/١٥٩، ١٩٨، ٣/١١، ١٤٧، ١٦٣، ٢١٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: سبحان اللہ! کھانا ایک آدمی کا اور اسی ٨٠ آدمیوں کو کافی ہوگیا، اس حدیث میں آپ کے ایک بڑے معجزہ کا ذکر ہے، اور اس قسم کے کئی بار اور کئی موقعوں پر آپ سے معجزے صادر ہوئے ہیں، عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ایسا ہی معجزہ انجیل میں مذکور ہے، اور یہ کچھ عقل کے خلاف نہیں ہے، ایک تھوڑی سی چیز کا بہت ہوجانا ممکن ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے سامنے نہایت سہل ہے، وہ اگر چاہے تو دم بھر میں رتی کو پہاڑ کے برابر کر دے، اور پہاڑ کو رتی کے برابر، اور جن لوگوں کے عقل میں فتور ہے، وہ ایسی باتوں میں شک و شبہ کرتے ہیں، ان کو اب تک ممکن اور محال کی تمیز نہیں ہے، اور جو امور ممکن ہیں ان کو وہ نادانی سے محال سمجھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انکا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہر مسلمان کو بچائے۔
Top