سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 838
حدیث نمبر: 838
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ أَبَا السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا فَارِسِيُّ، ‏‏‏‏‏‏اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ.
امام کے پیچھے قرأت کرنا
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص و ناتمام ہے ، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (تو کیا پھر بھی سورة فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ ؓ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥)، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٥ (٨٢١)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة (٢٩٥٣)، سنن النسائی/الافتتاح ٢٣ (٩١٠)، (تحفة الأشراف: ١٤٩٣٥)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩)، مسند احمد (٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٧٨، ٤٨٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی بہرحال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا چاہیے، امام ہو یا مقتدی، سری نماز ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری (رح) نے اس مسئلہ میں القراء ۃ خلف الإمام نامی ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ مقتدی کسی نماز میں قراءت نہ کرے نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں اور دلیل ان کی یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو (سورة الأعراف: 204)، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورة فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورة فاتحہ پڑھنا چاہیے جیسے ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراءت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورة فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورة فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، تنویر العینین میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورة فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر ؓ سے قراءت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر ؓ نے کہا: سورة فاتحہ پڑھا کرو، یزید نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو؟ تو عمر ؓ نے کہا: اگرچہ جہری نماز میں ہو، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا: مالی انازع القرآن، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھینا جھپٹی) اسی وقت ہوگی جب مقتدی بآواز بلند قراءت کرے، اور آہستہ سے صرف سورة فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ نے فرمایا: سورة فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورة فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہوگئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختار مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر نماز میں جہری ہو یا سری سورة فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورة فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہا ہو یا جماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہر شخص کے لیے ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوگی کیونکہ لا نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مراد ہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اور دشوار ہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کوئی مشکل نہیں کیونکہ از روئے شرع نماز مخصوص اقوال و افعال کو مخصوص طریقے سے ادا کرنے کا نام ہے، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہوجائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہوسکتی ہو تو وہ معنی مراد لیا جائے گا جو ذات سے قریب تر ہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاں صحت کی نفی مراد ہوگی جو ذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔
It was narrated from Abu Saib that he heard Abu Hurairah (RA) say. "The Messenger of Allah ﷺ said: Whoever performs a prayer in which he does not recite Ummul Quran (the Mother of the Quran, i.e., AI-Fatihah), it is deficient; not complete:" I said: O Abu Hurairah (RA) h, sometimes I am behind the lmtim. He pressed my forearm and said: a Persian! Recite it to yourself:" (Sahih)
Top