سنن ابنِ ماجہ - اقامت نماز اور اس کا طریقہ - حدیث نمبر 844
حدیث نمبر: 844
حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ جَمِيلٍ الْعَتَكِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَتَبَ أَنَّ سَمُرَةَ قَدْ حَفِظَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَعِيدٌ:‏‏‏‏ فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ:‏‏‏‏ مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا قَرَأَ:‏‏‏‏ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ يُعْجِبُهُمْ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ.
امام کے دو سکتوں کے بارے میں
سمرہ بن جندب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، عمران بن حصین ؓ نے اس کا انکار کیا، اس پر ہم نے مدینہ میں ابی بن کعب ؓ کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ ؓ نے ٹھیک یاد رکھا ہے۔ سعید نے کہا: ہم نے قتادہ سے پوچھا: وہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ایک تو وہ جب آپ ﷺ نماز شروع کرتے اور دوسرا جب قراءت فاتحہ سے فارغ ہوتے۔ پھر بعد میں قتادہ نے کہا: دوسرا سکتہ اس وقت ہوتا جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہہ لیتے، قتادہ نے کہا کہ صحابہ کرام ؓ کو یہ پسند تھا کہ جب امام قراءت سے فارغ ہوجائے تو تھوڑی دیر خاموش رہے، تاکہ اس کا سانس ٹھکانے آجائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ١٢٣ (٧٧٩، ٧٨٠)، سنن الترمذی/الصلاة ٧٢ (٢٥١)، (تحفة الأشراف: ٤٥٨٩)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٢١) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں حسن بصری ہیں، ان کا سماع سمرہ ؓ سے عقیقہ والی حدیث کے سوا کسی اور حدیث میں ثابت نہیں ہے، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ٥٠٥ )
وضاحت: ١ ؎: یہ بھی جائز ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورت بھی پڑھے، پھر سورة فاتحہ کا پڑھنا کیونکر جائز نہ ہوگا، لیکن اولی یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی صرف سورة فاتحہ پر قناعت کرلے، امام محمد نے موطا میں عبداللہ بن شداد سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم نے نماز میں امامت کی، ایک شخص نے آپ کے پیچھے قراءت کی، تو اس کے پاس والے نے اس کی چٹکی لی، جب وہ نماز پڑھ چکا تو بولا: تم نے چٹکی کیوں لی، پاس والے نے کہا: نبی اکرم نے فرمایا: جس کا امام ہو تو امام کی قراءت مقتدی کے لئے بھی کافی ہے، اس سے یہی مراد ہے کہ سورة فاتحہ کے علاوہ مقتدی اور دوسری سورة نہ پڑھے، اس باب کی تمام احادیث سے ثابت ہے کہ ہر نماز میں خواہ فرض ہو یا نفل، جہری ہو یا سری سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، بغیر فاتحہ پڑھے کوئی نماز درست نہیں ہوتی، یہ وہ مسئلہ ہے کہ امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری نے اس پر مستقل کتاب لکھی ہے، اور امام بیہقی نے ان سے بھی کئی گنا ضخیم کتاب لکھی ہے، اور سورة فاتحہ کے نہ پڑھنے والوں کے تمام شہبات کا مسکت جو اب دیا ہے، نیز مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری، اور مولانا ارشاد الحق نے اس موضوع پر مدلل کتابیں لکھی ہیں۔
It was narrated that Samurah bin Jundab said: "There are two pauses which I memorized from the Messenger of Allah ﷺ P.U.B.H but Imran bin Husain denied that. We wrote to Ubayy bin Kab in Al-Madinah, and he wrote that Samurah had indeed memorized them." (Hasan) (One of the narrators) Saeed said: "We said to Qatadah (RA) : What are these two pauses? He said: When he started his prayer, and when he finished reciting.": Then later he said: And when he recited: Not (the way) of those who earned Your Anger, nor of those who went astray. They used to like (for the Imam) when he had finished reciting to remain silent until he had caught his breath.
Top