سنن ابنِ ماجہ - تجارت ومعاملات کا بیان - حدیث نمبر 2153
حدیث نمبر: 2153
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ سَالِمِ بْنِ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
ذخیرہ اندوزی اور اپنے شہر میں تجارت کیلئے دوسرے شہر سے مال لانا۔
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جلب کرنے والا روزی پاتا ہے اور (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا ملعون ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشرا: ١٠٤٥٥، ومصباح الزجاجة: ٧٦٣)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع ١٢ (٢٥٨٦) (ضعیف) (سند میں زید بن علی بن جدعان ضعیف راوی ہے )
وضاحت: ١ ؎: ذخیرہ اندوزی (حکر اور احتکار ) یہ ہے کہ مال خرید کر اس انتظار میں رکھ چھوڑے کہ جب زیادہ مہنگا ہوگا تو بیچیں گے۔ جلب: یہ ہے کہ شہر میں بیچنے کے لئے دوسرے علاقہ سے مال لے کر آئے۔: ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت آئی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی حرام ہے، لیکن مراد وہی ذخیرہ اندوزی ہے کہ جس وقت شہر میں غلہ نہ ملتا ہو اور لوگوں کو غلہ کی احتیاج ہو، کوئی شخص بہت سا غلہ لے کر بند کر کے رکھ چھوڑے اور شہر والوں کے ہاتھ نہ بیچے اس انتظار میں کہ جب اور زیادہ گرانی ہوگی تو بیچیں گے، یہ اس وجہ سے حرام ہوا کہ اپنے ذرا سے فائدہ کے لئے لوگوں کو تکلیف دینا ہے، اور مردم آزاری کے برابر کوئی گناہ نہیں ہے۔
It was narrated from Umar bin Khattab that the Messenger of Allah ﷺ said: "The importer is blessed with provision and the hoarder is cursed." (Daif)
Top