سنن ابنِ ماجہ - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 2776
حدیث نمبر: 2776
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ حَبَّانَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَبْتَسِمُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَعَا لَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَجَابَهَا مِثْلَ جَوَابِهِ الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيَةً أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزَاتِهِمْ قَافِلِينَ فَنَزَلُوا الشَّامَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ.
بحری جنگ کی فضیلت۔
انس بن مالک ؓ اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان ؓ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز میرے قریب سوئے، پھر آپ ﷺ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں ، ام حرام ؓ نے کہا: اللہ سے آپ دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ ﷺ دوبارہ سو گئے، پھر ویسے ہی ہوا، آپ اٹھے تو ہنستے ہوئے، اور ام حرام ؓ نے وہی پوچھا جو پہلی بار پوچھا تھا، اور آپ ﷺ نے انہیں وہی جواب دیا جو پہلی بار دیا تھا، اس بار بھی انہوں نے عرض کیا: آپ اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم پہلے لوگوں میں سے ہو ۔ انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت ؓ کے ہمراہ جہاد کے لیے نکلیں، یہ پہلا موقع تھا کہ معاویہ بن ابی سفیان ؓ کے ساتھ مسلمان بحری جہاد پر گئے تھے چناچہ جب لوگ جہاد سے لوٹ رہے تھے تو شام میں رکے، ام حرام ؓ کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا، جس نے انہیں گرا دیا، اور وہ فوت ہوگئیں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ٣ (٢٧٨٨)، ٨ (٢٧٩٩)، ٦٣ (٢٨٧٧)، ٧٥ (٢٨٩٤)، ٩٣ (٢٩٢٤)، الاستئذان ٤١ (٦٢٨٢)، التعبیر ١٢ (٧٠٠١)، صحیح مسلم/الإمارة ٤٩ (١٩١٢)، سنن ابی داود/الجہاد ١٠ (٢٤٩٠، ٢٤٩٢)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد ١٥ (١٦٤٥)، سنن النسائی/الجہاد ٤٠ (٣١٧٤)، (تحفة الأشراف: ١٨٣٠٧)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجہاد ١٨ (٣٩)، مسند احمد (٣/٢٦٤، ٦/٣٦١، ٤٢٣، ٤٣٥)، سنن الدارمی/الجہاد ٢٩ (٢٤٦٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث میں نبی کریم کے کئی معجزے مذکور ہیں: ایک تو اس بات کی پیش گوئی کہ اسلام کی ترقی ہوگی، دوسرے مسلمان سمندر میں جا کر جہاد کریں گے، تیسرے ام حرام ؓ بھی ان مسلمانوں کے ساتھ ہوں گی اور اس وقت تک زندہ رہیں گی، چوتھے پھر ام حرام ؓ کا انتقال ہوجائے گا اور دوسرے لشکر میں شریک نہیں ہو سکیں گی، یہ سب باتیں جو آپ نے فرمائی تھیں پوری ہوئیں، اور یہ آپ کی نبوت کی کھلی دلیلیں ہیں جو شخص نبی نہ ہو وہ ایسی صحیح پیشین گوئیاں نہیں کرسکتا، سب قوموں سے پہلے عرب کے مسلمانوں نے ہی سمندر میں بڑے بڑے سفر شروع کئے اور علم جہاز رانی میں وہ ساری قوموں کے استاد بن گئے، مگر افسوس ہے کہ گردش زمانہ سے اب یہ حال ہوگیا کہ عرب تمام علوم میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور جو لوگ جاہل اور کم علم تھے یعنی یورپ کے لوگ وہ تمام جہاں کے لوگوں سے دنیاوی علوم و فنون میں سبقت لے گئے ہیں: وتلک الأيام نداولها بين الناس (سورة آل عمران: 140) اب بھی اگر مسلمانوں کی ترقی منظور ہے تو عربوں میں علوم اور فنون پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ان کو تمام جنگی علوم و فنون کی تعلیم دینا چاہیے، جب عرب پھر علوم میں ماہر ہوجائیں گے تو دنیا کی تمام اقوام کو ہلاکر رکھ دیں گے، یہ شرف اللہ تعالیٰ نے صرف عربوں ہی کو دیا ہے۔ واضح رہے کہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ ؓ انس بن مالک کی خالہ ہیں، ان کی شادی عبادہ بن صامت ؓ سے ہوئی تھی جن کے ساتھ وہ اس جہاد میں شریک ہوئیں اور سمندر کا سفر کیا بعد میں ایک جانور کی سواری سے گر کر انتقال ہوا اور قبرص میں دفن ہوئیں، یہ جنگ عثمان ؓ کے عہد میں معاویہ ؓ کی قیادت میں سن ٢٧ ہجری میں واقع ہوئی، ابوذر اور ابوالدرداء وغیرہ صحابہ کرام ؓ اس جنگ میں شریک تھے، معاویہ ؓ کی اہلیہ فاختہ بنت قرظہ ؓ بھی اس جنگ میں شریک تھیں۔
It was narrated from Anas bin Malik (RA) that his maternal aunt Umm Haram bint Milhan said: "The Messenger of Allah ﷺ slept near me one day, then he woke up smiling. I said: O Messenger of Allah, what has made you smile? He said: People of my nation who were shown to me (in my dream) riding across this sea like kings on thrones. I said: Supplicate to Allah to make me one of them." So he prayed for her. Then he slept again, and did likewise, and she said the same as she said before, and he replied in the same manner. She said: "Pray to Allah to make me one of them," and he said: "You will be one of the first ones." He said: "Then she went au t with her husband, "Ubadahh bin Samit, as a fighter, the first time that the Muslims crossed the sea with Muawiyah bin Abu Sufyan (RA) . On their way back, after they had finished fighting, they stopped in Sham. An animal was brought near for her to ride it, but it threw her off, and she died." (Sahih)
Top