سنن ابنِ ماجہ - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 2855
حدیث نمبر: 2855
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُعُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ وَكِيعٌ:‏‏‏‏ كَانَ لَا يَأْكُلُ اللَّحْمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَزَوْتُ مَعَ مَوْلَايَ يَوْمَ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا مَمْلُوكٌ فَلَمْ يَقْسِمْ لِي مِنَ الْغَنِيمَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُعْطِيتُ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ سَيْفًا، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتُ أَجُرُّهُ إِذَا تَقَلَّدْتُهُ.
غلام اور عورتیں جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں۔
محمد بن زید کہتے ہیں کہ میں نے آبی اللحم (وکیع کہتے ہیں کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے) کے غلام عمیر ؓ سے سنا: وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے مالک کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد کیا، چونکہ میں غلام تھا لہٰذا مجھے مال غنیمت میں حصہ نہیں ملا، صرف ردی چیزوں میں سے ایک تلوار ملی، جب اسے میں لٹکا کر چلتا تو (وہ اتنی لمبی تھی) کہ وہ گھسٹتی رہتی تھی ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد ١٥٢ (٢٧٣٠)، سنن الترمذی/السیر ٩ (١٥٥٧)، (تحفة الأشراف: ١٠٨٩٨)، وقد أخرجہ: مسند احمد ٥/٢٢٣)، سنن الدارمی/السیر ٣٥ (٢٥١٨) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: اس وجہ سے کہ تلوار لمبی ہوگی یا ان کا قد چھوٹا ہوگا لیکن امام جو مناسب سمجھے انعام کے طور پر ان کو دے، صحیح مسلم میں عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: غلام اور عورت کا کوئی حصہ معین تھا، جب وہ لوگوں کے ساتھ حاضر ہوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان دونوں کا کوئی حصہ متعین نہ تھا مگر یہ کہ مال غنیمت میں سے کچھ ان کو دیا جائے، اور ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی اکرم جہاد میں عورتوں کو رکھتے تھے، وہ دو زخمیوں کا علاج کرتیں اور مال غنیمت میں سے کچھ انعام ان کو دیا جاتا لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں کیا گیا۔
Umair, the freed slave of Aabi Lahm - Waki said;- "He used to not eat meat" - said: "I fought alongside my master on the Day of Khaibar, and I was a slave. I was not given anything from the spoils of war but I was given from the least of the utensils (goods) a sword, which I dragged when I put it around my waist."
Top