سنن ابنِ ماجہ - جہاد کا بیان - حدیث نمبر 2863
حدیث نمبر: 2863
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ عَلْقَمَةَ بْنَ مُجَزِّرٍ عَلَى بَعْثٍ وَأَنَا فِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى رَأْسِ غَزَاتِهِ أَوْ كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ اسْتَأْذَنَتْهُ طَائِفَةٌ مِنَ الْجَيْشِ فَأَذِنَ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسٍ السَّهْمِيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَكُنْتُ فِيمَنْ غَزَا مَعَهُ فَلَمَّا كَانَ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْقَدَ الْقَوْمُ نَارًا لِيَصْطَلُوا أَوْ لِيَصْنَعُوا عَلَيْهَا صَنِيعًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَكَانَتْ فِيهِ دُعَابَةٌ:‏‏‏‏ أَلَيْسَ لِي عَلَيْكُمُ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَا أَنَا بِآمِرِكُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا صَنَعْتُمُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنِّي أَعْزِمُ عَلَيْكُمْ إِلَّا تَوَاثَبْتُمْ فِي هَذِهِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ نَاسٌ فَتَحَجَّزُوا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّهُمْ وَاثِبُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمْسِكُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّمَا كُنْتُ أَمْزَحُ مَعَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَةِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تُطِيعُوهُ.
اللہ کی نا فرمانی کرکے کسی کی اطاعت درست نہیں۔
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علقمہ بن مجزر ؓ کو ایک لشکر کا سردار بنا کر بھیجا، میں بھی اس لشکر میں تھا، جب وہ لشکر کے آخری پڑاؤ پر پہنچے یا درمیان راستے ہی میں تھے تو لشکر کی ایک جماعت نے (آگے جانے کی) اجازت مانگی، علقمہ ؓ نے اجازت دے دی، اور عبداللہ بن حذافہ بن قیس سہمی ؓ کو ان پر امیر مقرر کردیا، میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے ان کے ساتھ غزوہ کیا، ابھی وہ راستہ ہی میں تھے کہ ان لوگوں نے تاپنے یا کچھ پکانے کے لیے آگ جلائی، تو عبداللہ بن حذافہ ؓ (جن کے مزاج میں خوش طبعی پائی جاتی تھی) نے کہا: کیا تم پر میری بات سننا اور اطاعت کرنا واجب نہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: کیوں نہیں؟ کہا: میں کسی کام کے کرنے کا تمہیں حکم دوں تو تم حکم بجا لاؤ گے؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں، کہا: میں لازمی حکم دیتا ہوں کہ تم اس آگ میں چھلانگ لگا دو، کچھ لوگ کھڑے ہوگئے اور کودنے کے لیے کمر کس لی، عبداللہ بن حذافہ ؓ کو جب یہ گمان ہوا کہ واقعی یہ تو کود ہی جائیں گے، تو بولے: ٹھہرو، میں تم سے یونہی مذاق کر رہا تھا ١ ؎۔ جب ہم لوگ واپس مدینہ آئے، لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کو سارا ماجرا سنایا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حکام میں جو تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات نہ ما نو ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٤٢٦٦، ومصباح الزجاجة: ١٠١٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٦٧) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: اس واقعہ سے پتہ چلا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے تو اس کی بات ہرگز مت مانو اگرچہ وہ امام ہو یا حاکم یا خلیفہ یا بادشاہ یا رئیس یا سردار، اللہ کی اطاعت سب پر مقدم ہے، پھر جب خلاف شریعت باتوں میں امام کی اطاعت منع ہوئی تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کسی مجتہد یا عالم کی اطاعت کیوں کر جائز ہوگی، اس حدیث سے تقلید کی جڑ کٹ گئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بادشاہ یا امام شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی بات نہ ماننی چاہیے بلکہ اس کو شریعت کی اطاعت کے لئے مجبور کرنا چاہیے، اگر شریعت کی اطاعت قبول نہ کرے تو اگر قدرت اور طاقت ہو تو اس کو فوراً معزول کر کے دوسرے کسی پرہیزگار دین دار کو اپنا امام یا بادشاہ بنانا چاہیے، یہی اسلام کا شیوہ ہے اور یہی حکم الٰہی ہے۔
It was narrated from Abu Saeed Al-Khudri that the Messenger of Allah ﷺ sent Alqamah bin Mujazziz at the head of a detachment, and I was among them. When he reached the battle site, or when he was partway there, a group of the army asked permission to take a different route, and he gave them permission .
Top