سنن ابنِ ماجہ - حج کا بیان - حدیث نمبر 2955
حدیث نمبر: 2955
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْالْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هُوَ مِنْ الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ مَا مَنَعَهُمْ أَنْ يُدْخِلُوهُ فِيهِ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَجَزَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا، ‏‏‏‏‏‏لَا يُصْعَدُ إِلَيْهِ إِلَّا بِسُلَّمٍ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ فِعْلُ قَوْمِكِ لِيُدْخِلُوهُ مَنْ شَاءُوا، ‏‏‏‏‏‏وَيَمْنَعُوهُ مَنْ شَاءُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَخَافَةَ أَنْ تَنْفِرَ قُلُوبُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏لَنَظَرْتُ هَلْ أُغَيِّرُهُ فَأُدْخِلَ فِيهِ مَا انْتَقَصَ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجَعَلْتُ بَابَهُ بِالْأَرْضِ.
حطیم کو طواف میں شامل کرنا (یعنی حطیم سے باہر طواف کرنا)۔
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفر سے قریب نہ گزرا ہوتا اور (اسلام سے) ان کے دلوں کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں سوچتا کہ میں اس کو بدل دوں، جو حصہ رہ گیا ہے اس کو اس میں داخل کر دوں، اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ٤٢ (١٥٨٤)، أحادیث الأنبیاء ١٠ (٣٣٦٨)، تفسیر البقرة ١٠ (٤٤٨٤)، صحیح مسلم/الحج ٦٩ (١٣٣٣)، سنن النسائی/الحج ١٢٨ (٢٩١٣)، (تحفة الأشراف: ١٦٠٠٥)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج ٣٣ (١٠٤)، سنن الدارمی/المناسک ٤٤ (١٩١١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: حطیم کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیے اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے تو طواف درست نہ ہوگا۔ اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں یعنی نیچا کر دوں کہ جس کا جی چاہے بغیر سیڑھی کے اندر چلا جائے دوسری روایت میں ہے کہ میں اس کے دو دروازے کرتا ایک پورب ایک پچھم، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض کام مصلحت کے ہوتے ہیں، لیکن اس میں فتنہ کا خوف ہو تو اس کو ترک کرنا جائز ہے، رسول اکرم ﷺ اور خلفاء کے عہد میں کعبہ ایسا ہی رہا اور جیسا آپ چاہتے تھے ویسا بنانے کی فرصت نہیں ہوئی، عبداللہ بن زبیر ؓ نے اپنے عہد میں کعبہ کو اسی طرح بنایا جیسا رسول اکرم ﷺ نے بنانا چاہا تھا، لیکن حجاج نے جب عبداللہ بن زبیر ؓ کو قتل کیا تو ضد سے پھر کعبہ کو توڑ کر ویسا ہی کردیا جیسا جاہلیت کے زمانے میں تھا، خیر پھر اس کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے اپنی خلافت میں امام مالک سے سوال کیا کہ اگر آپ کہیں تو میں کعبہ کو پھر توڑ کر جیسا ابن زبیر ؓ نے بنایا تھا، ویسا ہی کر دوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اب کعبہ کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ اس کی وقعت لوگوں کے دلوں سے جاتی رہے گی۔
It was narrated that Aisha (RA) said: "I asked the Messenger of Allah ﷺ about the Hijr, and he said: It is part of the House. I said: What kept them from incorporating it into it? He said: They ran out of funds. I said: Why is its door so high up that it can only be reached with a ladder? He said: That is what your people did so that they could let in whoever they wanted and keep out whoever they wanted. Were it not that your people have so recently left disbelief behind, and I am afraid that it would bother them, I would have changed it, incorporating what they left out and I would put its door at ground level." (Sahih)
Top