سنن ابنِ ماجہ - حج کا بیان - حدیث نمبر 2980
حدیث نمبر: 2980
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا لَا نَخْلِطُهُ بِعُمْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمْنَا مَكَّةَ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا طُفْنَا بِالْبَيْتِ وَسَعَيْنَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ نَحِلَّ إِلَى النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا مَا بَيْنَنَا:‏‏‏‏ لَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ فَنَخْرُجُ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَذَاكِيرُنَا تَقْطُرُ مَنِيًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَبَرُّكُمْ وَأَصْدَقُكُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا الْهَدْيُ، ‏‏‏‏‏‏لَأَحْلَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ:‏‏‏‏ أَمُتْعَتُنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَمْ لِأَبَدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا بَلْ لِأَبَدِ، ‏‏‏‏‏‏الْأَبَدِ.
حج کا احرام فسخ کرنا۔
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا) ، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ١ ؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کردیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہوجائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سب سے زیادہ نیک اور سچا ہوں ٢ ؎، اگر میرے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور) نہ ہوتا تو میں بھی (عمرہ کر کے) حلال ہوجاتا (یعنی احرام کھول ڈالتا اور حج کو عمرہ میں تبدیل کردیتا) ۔ سراقہ بن مالک ؓ نے اس وقت عرض کیا: حج میں یہ تمتع ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے ٣ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/المناسک ٢٣ (١٧٨٧)، (تحفة الأشراف: ٢٤٢٦)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج ١٧ (١٢١٦)، سنن النسائی/الحج ٧٧ (٢٨٠٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی حج افراد کا احرام باندھا۔ ٢ ؎: یعنی جو کہہ رہا ہوں کسی پس و پیش کے بغیر انجام دو، میری کوئی بات تقویٰ و پرہیز گاری کے منافی نہیں ہوسکتی۔ ٣ ؎: ہر ایک شخص کے لیے قیامت تک تمتع کرنا جائز ہے، اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام باندھے لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہ ہو تو وہ مکہ میں جا کر حج کی نیت فسخ کرسکتا ہے، اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے، پھر یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی ٨ تاریخ کو حج کے لئے نیا احرام باندھے، اور اس تاریخ (آٹھ) تک سب کام کرسکتا ہے جو احرام کی حالت میں جائز نہ تھے، امام ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کا فتوی ٰ دیا، پھر فتویٰ دیا کہ یہ امر مستحب ہے ضرور اس کام کو کرنا چاہیے، اور یہ حکم کسی دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہوا، اور دین اللہ تعالیٰ کا ہے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حج کو فسخ کر ڈالنا اور عمرہ کردینا اگر کوئی ان احادیث کی رو سے واجب کہے تو اس کا قول قوی ہوگا، بہ نسبت اس شخص کے قول کے جو اس سے منع کرتا ہے ... الی آخرہ۔
It was narrated that Jabir bin Abdullah said: "We began our Talbiyah for Hajj only with Allahs Messenger ﷺ , and we did not mix it with Umrah. We arrived in Makkah when four nights of Dhul-Hijjah had passed, and when we had performed Tawaf around the Ka’bah and Sa’y between Safa and Marwah, the Messenger of Allah ﷺ commanded us to make it ‘Umra and to come out of Ihram and have relations with our wives. We said: ‘There are only five (days) until ‘Arafah. Will we go out to it with our male organs dripping with semen?’ The Messenger of Allah ﷺ said: ‘I am the most righteous and truthful among you and were it not for the sacrificial animal, I would have exited Ihrdm.’ Surâqah bin Málik said: ‘Is this Tamattu’ for this year only or forever?’ He said: ‘No, it is forever and ever.” (Sahih)
Top