سنن ابنِ ماجہ - حج کا بیان - حدیث نمبر 2982
حدیث نمبر: 2982
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اجْعَلُوا حِجَّتَكُمْ عُمْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّاسُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَافْعَلُوا، ‏‏‏‏‏‏فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ، ‏‏‏‏‏‏فَغَضِبَ فَانْطَلَقَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَتِ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ مَنْ أَغْضَبَكَ، ‏‏‏‏‏‏أَغْضَبَهُ اللَّهُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا آمُرُ أَمْرًا فَلَا أُتْبَعُ.
حج کا احرام فسخ کرنا۔
براء بن عازب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے حج کو عمرہ کر دو ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کرلیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو ، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ ﷺ غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ ؓ کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے تو بولیں: کس نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ اللہ اسے ناراض کرے، آپ ﷺ نے فرمایا: میں کیوں کر غصہ نہ کروں جب کہ میں ایک کام کا حکم دیتا ہوں اور میری بات نہیں مانی جاتی ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٩٠٧، ومصباح الزجاجة: ١٠٤٦)، وقد أخرجہ: (٤/٢٨٦) (ضعیف) (ابو بکر بن عیاش بڑھاپے کی وجہ سے سئی الحفظ (حافظہ کے کمزور) ہوگئے تھے، اور ابو اسحاق اختلاط کا شکار تھے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ٤٧٥٣ )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پر عمل نہیں کیا، تو وہ رسول اللہ ﷺ کو غصہ دلاتا اور آپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکانا کہیں نہیں ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے: مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے، اگرچہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر، مرشد، عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدورت اور تنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔ اگر ایسا نہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اور مولوی اس کے خلاف ہیں، آخر ان لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے، اور کچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہوگا؟ تو جان لینا چاہیے کہ اللہ کے رسول ﷺ ان سے ناراض ہیں، اور ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ ﷺ ہی ناراض ہوگئے اور بالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے، وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پار ہے، یا اللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اور آل و اصحاب رسول سے ملا دے، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے، عالم برزخ اور آخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اور کا ساتھ چاہیے۔ اگر جنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد ﷺ کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو۔ مسلک سنت پہ سالک تو چلا چل بےڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک۔
It was narrated that Bara bin Azib (RA) said: "The Messenger of Allah ﷺ and his Companions came out to us and we entered Ihriim for Hajj. When we came to Makkah, he said: Make your Hajj (to) Umrah. The people said: O Messenger of Allah, we have entered lhram for Hajj, how can we make it umrah? He said: Look at what I command you to do, and do it. They repeated their question and he got angry and went away. Then he entered upon " Aisha (RA) angry and she saw anger in his face, and said: Who has made you angry? May Allah vex him! He said: Why should I not get angry, when I give a command and it is not obeyed? (Daif)
Top