سنن ابنِ ماجہ - حج کا بیان - حدیث نمبر 3029
حدیث نمبر: 3029
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحُصَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ:‏‏‏‏ الْقُطْ لِي حَصًى، ‏‏‏‏‏‏فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَيَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ يَنْفُضُهُنَّ فِي كَفِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ فَارْمُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ.
کتنی بڑی کنکریاں مارنی چاہیے۔
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جمرہ عقبہ کی صبح کو فرمایا، اس وقت آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، چناچہ میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آجائیں، آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے: انہیں جیسی کنکریاں مارو ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ٢١٧ (٣٠٥٩)، ٢١٩ (٣٠٦١)، (تحفة الأشراف: ٥٤٢٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٢١٥، ٣٤٧، ٥/١٢٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: غلو: کسی کام کو حد سے زیادہ بڑھا دینے اور اس میں ضرورت سے زیادہ سختی کرنے کو غلو کہتے ہیں، مثلاً کنکریاں مارنے کا حکم ہے تو چھوٹی کنکریاں کافی ہیں، اب غلو یہ ہے کہ بڑی بڑی کنکریاں مارے یا پتھر پھینکے اور اس کو زیادہ ثواب کا کام سمجھے، دین کے ہر کام میں غلو کرنا منع ہے اور یہ حماقت کی دلیل ہے، یہ بھی غلو ہے کہ مثلاً کسی نے مستحب یا سنت کو ترک کیا تو اس کو برا کہے اور گالیاں دے، اگر کوئی سنت کو ترک کرے تو صرف نرمی سے اس کو حدیث سنا دینا کافی ہے، اگر لوگ فرض کو ترک کریں تو سختی سے اس کو حکم کرنا چاہیے، لیکن اس زمانہ میں یہ حال ہوگیا ہے کہ فرض ترک کرنے والوں کو کوئی برا نہیں کہتا ہے، لوگ تارکین صلاۃ، شرابیوں اور سود خوروں سے دوستی رکھتے ہیں، لیکن اذان میں کوئی انگوٹھے نہ چومے یا مولود میں قیام نہ کرے تو اس کے دشمن ہوجاتے ہیں، یہ بھی ایک انتہائی درجے کا غلو ہے، اور ایسی ہی باتوں کی وجہ سے مسلمان تباہ ہوگئے، اور جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔
It was narrated that Ibn Abbas said: "On the morning of Aqabahh, when he was atop his she-camel, the Messenger of Allah ﷺ said: Pick up some pebbles for me. So I picked up seven pebbles for him, suitable for Khadhf.He began to toss them in his hand, saying: Throw something like these. Then he said: O people, beware of exaggeration in religious matters for those who came before you were doomed because of exaggeration in religious matters. (Sahih)
Top