سنن ابنِ ماجہ - حدود کا بیان - حدیث نمبر 2563
حدیث نمبر: 2563
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ.
جو قوم لوط کا عمل کرے
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کے عمل یعنی اغلام بازی کا ہے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الحدود ٢٤ (١٤٥٧)، (تحفة الأشراف: ٢٣٦٧)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٣٨٢) (حسن) (شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل منکر الحدیث ہیں )
وضاحت: ١ ؎: ابن الطلاع مالکی أقضیۃ الرسول میں کہتے ہیں کہ نبی کریم سے لواطت میں رجم ثابت نہیں ہے اور نہ اس کے بارے میں آپ کا کوئی فیصلہ ہی ہے، بلکہ ابن عباس، ابوہریرہ ؓ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو، اور بیہقی نے علی ؓ سے روایت کی کہ انہوں نے ایک اغلام باز کو رجم کیا ( ٨ /٢٣٢)، شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا یہی قول ہے کہ وہ رجم کیا جائے، چاہے شادی شدہ ہو یا کنوارا، اور بیہقی نے روایت کی کہ ابوبکر ؓ نے ایک مفعول کے لئے صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا، تو اس دن سب سے زیادہ سخت رائے علی ؓ نے دی اور کہا: اس گناہ کو کسی امت نے نہیں کیا سوائے ایک امت کے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو آگ سے جلا دیں، تو صحابہ کرام نے اس کو آگ سے جلانے پر اتفاق کیا، ابوبکر ؓ نے خالد بن ولید ؓ کو لکھا کہ اس کو آگ سے جلا دو، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، اس کی سند میں ابراہیم بن ابی رافع مدینی ضعیف راوی ہے، بعضوں نے اس کو جھوٹا کہا ہے، لیکن اس کا دوسرا طریق بھی ہے، جس سے روایت صرف مرسل ہے۔ ابوداود نے صحیح سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ اغلام بازی کرنے والے کو رجم کیا جائے گا، اور بیہقی نے صحیح سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ان سے اغلام بازی کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: سب سے اونچے مکان سے اوندھا کر کے گرا دیا جائے، پھر پتھروں سے کچلا جائے۔ اغلام بازی متفقہ طور پر حرام اور کبیرہ گناہ ہے، لیکن اس کی سزا کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اوپر بعض صحابہ کا مذہب مذکور ہوا کہ اس کی سزا قتل ہے، چاہے وہ غیر شادی شدہ ہو، اور فاعل اور مفعول دونوں اس سزا میں برابر ہیں، یہی امام شافعی کا مسلک ہے، اور اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کریں گرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں بشرطیکہ مفعول پر جبر نہ ہوا ہو، بعض لوگوں نے اس پر صحابہ کا اجماع نقل کیا ہے، اور بغوی نے شعبی، زہری، مالک، احمد اور اسحاق سے نقل کیا کہ وہ رجم کیا جائے، شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اگر زانی کا دو بار رجم درست قرار دیا جائے تو اغلام باز کو بھی رجم کیا جائے گا، منذری کہتے ہیں کہ اغلام بازی کرنے والے کو ابوبکر، علی، عبداللہ بن زبیر ؓ، اور ہشام بن عبدالملک نے زندہ جلایا۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ زیادہ واضح بات یہ ہے کہ اغلام باز کی حد زانی کی حد ہے، اگر وہ شادی شدہ ہو تو رجم کیا جائے گا، ورنہ کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کیا جائے گا، اور جس کے ساتھ یہ فعل قبیح کیا گیا ہو یعنی مفعول کو کوڑے لگائے جائیں گے، اور جلا وطن کیا جائے گا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ امام جو سزا مناسب سمجھے وہ دے، لیکن نہ رجم ہوگا اور نہ کوڑے لگائے جائیں گے۔ نواب صدیق حسن فرماتے ہیں کہ فاعل اور مفعول کے قتل کرنے کے سلسلے میں رسول اللہ کا حکم صحیح اور ثابت ہے، اور صحابہ کرام نے اس حکم کی تنفیذ فرمائی یہ بھی ثابت ہے، اور انہوں نے اس عظیم فحش کام کرنے والوں کو شادی اور غیر شادی کی تفریق کے بغیر قتل کیا، اور ان کے زمانے میں ایسا کئی بار ہوا، اور ان میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، جب کہ مسلمان کے خون بہائے جانے جیسے مسئلے پر کسی مسلمان کے لیے خاموشی جائز نہیں ہے، اور یہ وہ عہد تھا کہ حق بات جو بھی ہو اور جہاں سے بھی ہو مقبول ہوتی تھی، تو اگر اغلام باز کا زانی کے سلسلے کے وارد دلائل کے عموم میں اندراج صحیح ہو تو ہر فاعل چاہے وہ شادی ہو یا غیر شادی شدہ کے قتل کے سلسلے میں وارد دلیل سے وہ عموم مخصوص ہوجائے گا، (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیۃ ٣ /٢٨٣- ٢٨٦ )
It was narrated from Jabir bin Abdullah that the Messenger of Allah ﷺ said: "The thing that I most fear for my nation is the action of the people of Lut.”
Top