سنن ابنِ ماجہ - دعاؤں کا بیان - حدیث نمبر 3853
حدیث نمبر: 3853
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ،‏‏‏‏ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،‏‏‏‏ عَنْ الزُّهْرِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ،‏‏‏‏ قِيلَ:‏‏‏‏ وَكَيْفَ يَعْجَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَدْ دَعَوْتُ اللَّهَ فَلَمْ يَسْتَجِبْ اللَّهُ لِي.
دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلدی نہ کرے۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلدی نہ کرے ، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ یوں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہ کی ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدعوات ٢٢ (٦٣٤٠)، صحیح مسلم/الذکروالدعاء ٢٥ (٢٧٣٥)، سنن ابی داود/الصلاة ٣٥٨ (١٤٨٤)، سنن الترمذی/الدعوات ١٢ (٣٣٨٧)، (تحفة الأشراف: ٢٩٢٩)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القرآن ٨ (٢٩)، مسند احمد (٢/٣٩٦، ٤٨٧) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: ایسا کہنا مالک کی جناب میں بےادبی ہے، اور مالک کا اختیار ہے جب وہ مناسب سمجھتا ہے اس وقت دعا قبول کرتا ہے، کبھی جلدی، کبھی دیر میں اور کبھی دنیا میں قبول نہیں کرتا، جب بندے کا فائدہ دعا قبول نہ ہونے میں ہوتا ہے تو آخرت کے لئے اس دعا کو اٹھا رکھتا ہے، غرض مالک کی حکمتیں اور اس کے بھید زیادہ وہی جانتا ہے، اور کسی حال میں بندے کو اپنے مالک سے مایوس نہ ہونا چاہیے، کیونکہ سوا اس کے در کے اور کونسا در ہے؟ اور وہ اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ رحیم وکریم ہے، پس بہتر یہی ہے کہ بندہ سب کام اللہ کی رضا پر چھوڑ دے اور ظاہر میں شرعی احکام کے مطابق دعا کرتا رہے، لیکن اگر دعا قبول نہ ہو تو بھی دل خوش رہے، اور یہ سمجھے کہ اس میں ضرور کوئی حکمت ہوگی، اور ہمارا کچھ فائدہ ہوگا۔
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Messenger of Allah( ﷺ saw) said: "It is necessary that you do not become hasty." It was said: "What does being hasty mean, a Messenger of Allah? ﷺ " He said: "When one says: I supplicated to Allah but Allah did not answer me:" (Sahih)
Top