سنن ابنِ ماجہ - روزوں کا بیان - حدیث نمبر 1759
حدیث نمبر: 1759
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمٌ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ .
جس کے ذمے نذر کے روزے ہوں اور وہ فوت ہو جائے
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں کا انتقال ہوگیا، اور اس پر روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصوم ٢٧ (١١٤٩)، سنن ابی داود/الزکاة ٣١ (١٦٥٦)، الوصایا ١٢ (٢٨٧٧)، الإیمان ٢٥ (٣٣٠٩)، سنن الترمذی/ الزکاة ٣١ (٦٦٧)، (تحفة الأشراف: ١٩٨٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٣٥١، ٣٦١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہوگا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہوگا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہوگا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔
It was narrated from Ibn Buraidah that his father said: "A woman came to the Prophet ﷺ and said: O Messenger of Allah, my mother has died and she owed a fast. Should I fast on her behalf? He said: Yes. (Sahih)
Top