سنن ابنِ ماجہ - زکوۃ کا بیان - حدیث نمبر 1807
حدیث نمبر: 1807
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ زَادَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَيْسٌ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ .
بکر یوں کی زکوة
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دو سو سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور نہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہوں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں ١ ؎، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا، عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جائے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خود ہی لینا چاہے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٨٥٤٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں، اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں ہیں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، زکاۃ وصول کرنے والا آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجیے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے، اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں، اور دو سو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالی سے بنتے ہیں جن میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہوگی اور ٢٥ چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر ہوگی، اب اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپئے واپس کرے گا، اور اگر زکاۃ وصول کرنے والے نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے دس بکریاں لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ ادا کرے گا۔ ٢ ؎: یعنی جب کسی مصلحت کی وجہ سے محصل (زکاۃ وصول کرنے والا) کسی عیب دار یا بوڑھے یا نر جانور کو لینا چاہے تو صاحب مال پر کوئی زور نہیں کہ وہ دے ہی دے اور محصل کی مرضی کے بغیر اس قسم کے جانور کو زکاۃ میں دینا منع ہے، مصلحت یہ ہے کہ مثلاً عیب دار جانور قوی اور موٹا ہو، دودھ کی زیادہ توقع ہو، یا زکاۃ کے جانور سب مادہ ہوں، ان میں نر کی ضرورت ہو تو نر قبول کرے یا بوڑھا جانور ہو لیکن عمدہ نسل کا ہو تو اس کو قبول کرے۔ واللہ اعلم۔
It was narrated from Ibn Umar, from that the Prophet ﷺ : "For forty sheep, one sheep, up to one hundred and twenty. If there is one more, then two sheep, up to two hundred. If there is one more, then three sheep, up to three hundred. If there are more than that, then for every hundred one sheep. Do not separate a combined flock and do not combine separate flocks for fear of Sadqah. Each partner (who has a share in a combined flock) should pay in proportion to his shares. And the Zakat collector should not accept any decrepit or defective animal, nor any male goat, unless he wishes to." (Hasan)
Top