سنن ابنِ ماجہ - سنت کی پیروی کا بیان - حدیث نمبر 48
حدیث نمبر: 48
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ . ح وحَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاحَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي غَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58 الْآيَةَ.
بدعت اور جھگڑنے سے بچنے کا بیان۔
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پر رہنے کے بعد گمراہ اس وقت ہوئی جب وہ جدال (بحث اور جھگڑے) میں مبتلا ہوئی ، پھر آپ ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی: بل هم قوم خصمون بلکہ وہ جھگڑالو لوگ ہیں (سورة الزخرف: 58) ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/التفسیر ٤٤ (٣٢٥٣)، (تحفة الأشراف: ٤٩٣٦)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٢٥٢، ٢٥٦) (حسن )
وضاحت: ١ ؎: پوری آیت یوں ہے: ولما ضرب ابن مريم مثلا إذا قومک منه يصدون (57) وقالوا أآلهتنا خير أم هو ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون (سورة الزخرف: 58) اور جب عیسیٰ ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو آپ کی قوم اس پر خوشی سے چیخنے چلانے لگی ہے، اور کہتی ہے کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ؟ ان کا آپ سے یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ وہ لوگ جھگڑالو ہیں ہی۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابن الزبعری نے رسول اللہ سے بحث و مجادلہ کیا تھا، اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: إنكم وما تعبدون من دون الله حصب جهنم تم اور تمہارے معبودان باطل جہنم کا ایندھن ہیں (سورة الأنبياء: 98)، تو ابن الزبعری نے آپ سے کہا کہ میں آپ سے بحث و حجت میں جیت گیا، قسم ہے رب کعبہ کی! بھلا دیکھو تو نصاری مسیح کو، اور یہود عزیر کو پوجتے ہیں، اور اسی طرح بنی ملیح فرشتوں کو، سو اگر یہ لوگ جہنم میں ہیں تو چلو ہم بھی راضی ہیں کہ ہمارے معبود بھی ان کے ساتھ رہیں، سو کفار فجار اس پر بہت ہنسے اور قہق ہے لگانے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: إن الذين سبقت لهم منا الحسنى أولئك عنها مبعدون بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے، وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے (سورة الأنبياء: 101)۔ حقیقت میں ابن الزبعری کا اعتراض حماقت سے بھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وما تعبدون فرمایا ہے، یعنی جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اور لفظ ما عربی میں غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے، ملائکہ اور انبیاء ذوی العقول ہیں، اس لئے وہ اس میں کیوں کر داخل ہوں گے، اور باوجود اہل لسان ہونے کے اس کو اس طرف خیال نہ ہوا۔ جدال کہتے ہیں حق کے مقابلے میں باطل اور جھوٹی باتیں بنانے کو اور اسی قبیل سے ہے قیاس اور رائے کو دلیل و حجت کے آگے پیش کرنا، یا کسی امام اور عالم کا قول حدیث صحیح کے مقابل میں پیش کرنا، خلاصہ کلام یہ کہ حق کے رد و ابطال میں جو بات بھی پیش کی جائے گی وہ جدال ہے، جس کی قرآن کریم میں بکثرت مذمت وارد ہوئی ہے۔
It was narrated that Abu Umaman said: “The Messenger of Allah ﷺ said: ‘No people go astray after having followed right guidance, but those who indulge in disputes.’ Then he recited this Verse: “Nay! But they are a quarrelsome people. (Hasan)
Top