سنن ابنِ ماجہ - سنت کی پیروی کا بیان - حدیث نمبر 68
حدیث نمبر: 68
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، ‏‏‏‏‏‏أَوَ لَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ .
ایمان کا بیان۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہوسکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ٢٢ (٥٤)، سنن الترمذی/الاستئذان ١ (٢٦٨٨)، (تحفة الأشراف: ١٢٤٦٩، ١٢٥١٣)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب ١٤٢ (٥١٩٣)، مسند احمد (١/١٦٥، ٢/٣٩١)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ٣٦٩٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض سلام کرنے ہی سے تم مومن قرار دیے جاؤ گے، اور جنت کے مستحق ہوجاؤ گے، بلکہ مطلب یہ کہ ایمان اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے ساتھ عمل بھی ہوگا، اور سلام اسلام کا ایک شعار اور ایمان کا عملی مظاہرہ ہے، ایمان اور عمل کا اجتماع ہی مومن کو جنت میں لے جائے گا، اس حدیث میں سلام عام کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: “The Messenger of ALLAH S.A.W.W said: ‘By the One in Whose Hand is my soul You will not enter Paradise until you believe, and you will not (truly) believe until you love one another. Shall I not tell you of something which, if you do it, you will love one another? Spread greetings of Salaam amongst yourselves.” (Sahih)
Top